پولستانی دارالحکومت وارسا کی انتظامیہ نے ملک کے یوم آزادی کے موقع پر شہر میں قوم پرستوں کے مارچ پر پابندی عائد کر دی ہے۔ شہر کے میئر کے مطابق اس پابندی کا مقصد ’نسل پرستی‘ کے واقعات کا انسداد کرنا ہے۔
تصویر: Reuters/Agenzia Gazeta
اشتہار
وارسا کی میئر چاہتی ہیں کہ گزشتہ برس کے یوم آزادی کے موقع پر ایسی ایک پریڈ کی وجہ سے ہونے والے نسل پرستانہ واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ پولینڈ میں اتوار کے روز یوم آزادی کی تقریبات منائی جانا ہیں تاہم اب وارسا میں قوم پرست افراد کے مارچ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
میئر ہانا گرونکیویچز والٹز نے کہا، ’’اپنی آزادی واپس حاصل کرنے کی سوویں سال گرہ کی تقریبات منانے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ وارسا پہلے ہی جارحانہ قوم پرستی سے متاثر ہو چکا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس مارچ کے حوالے سے سلامتی کے خدشات نے بھی انہیں اس فیصلے پر مجبور کیا۔
اس سے قبل پولستانی قوم پرستوں اور انتہائی دائیں بازو کی تنظیموں نے کہا تھا کہ وہ رواں برس یوم آزادی کے موقع پر ایک بڑا مارچ کریں گے، جس میں ایک لاکھ تا ڈھائی لاکھ افراد شریک ہوں گے۔
قوم پرستوں نے گزشتہ برس یوم آزادی کی تقریبات کے موقع پر بھی وارسا کی سڑکوں پر مارچ کیا تھا، جس میں قریب ساٹھ ہزار افراد شریک ہوئے تھے۔ اس مارچ میں نسل پرستانہ نعروں کے علاوہ مسلم مخالف بینرز بھی شامل کیے گئے تھے، جس پر بین الاقوامی برداری کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔
روسی قوم پرست زاروں کی واپسی کے خواہش مند
’آرتھوڈوکس عقیدہ یا موت‘ یہ ان کا نعرہ جنگ ہے۔ روس میں شاہی نظام کا حامی ایک مذہبی گروہ زاروں کے شاہی دور کو پھر زندہ کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی آرتھوڈوکس کلیسا کی مدد سے۔ ماضی کے روسی بادشاہ ’زارِ روس‘ کہلاتے تھے۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
’سربراہ مملکت کوئی زار ہو‘
لیونڈ سیمونووچ بنیاد پرستوں کی ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ کے سربراہ ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ روسی مملکت کی سربراہی کسی زار کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔ یہ گروہ اپنے اجتماعات اور مظاہروں کے ذریعے اپنی سوچ دوسروں تک پہنچاتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
کلیسا کا تعاون ضروری
لیونڈ سیمونووچ کہتے ہیں، ’’ہم بالکل ویسی ہی ایک مستحکم سلطنت کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں، جیسی روسی زاروں کے دور میں تھی۔‘‘ ان کے بقول ایسا کرنا صرف کلیسا کی مدد سے ہی ممکن ہے، ’’لادینیت اس کے لیے موزوں نہیں کیونکہ اس سے آمریت جنم لیتی ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
زار خاندان کا قتل
سترہ جولائی 1918ء کو زار نکولائی دوئم اور ان کے اہل خانہ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ انقلابی رہنما لینن کے کہنے پر انہیں یہ سزا دی گئی تھی۔ اس طرح روس میں تین سو سال پرانی رامانوف بادشاہت کا خاتمہ بھی ہو گیا تھا۔ زار خاندان کے قتل کے ایک سو سال پورے ہونے پر ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ نے ماسکو کے معروف اشپاسو اندرونیکوف راہب خانے کی طرف مارچ بھی کیا تھا۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
سیاہ لباس اور بینر اٹھائے ہوئے
’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ صرف مطلق العنان حکومت کی بحالی کا مطالبہ ہی نہیں کرتی بلکہ وہ روسی قوم پرستی کو دوبارہ زندہ کرنے کی بات بھی کرتی ہے۔ اس تنظیم کے ارکان سیاہ لباس اور سیاہ رنگ کے جوتے پہنتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر روک موسیقی کے کسی کلب کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ ان افراد کے پاس صلیب جیسی مسیحی مذہبی علامات بھی ہوتی ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
یادگار تصاویر سے آرائش
اس گروپ کے زیادہ تر لوگ آرائش کے لیے پرانی اور یادگار تصاویر دیواروں پر لگاتے ہیں۔ پال اس گروپ کے رکن ہیں اور ان کے کمرے کی دیواروں پر اُن تمام آرتھوڈوکس مسیحی خانقاہوں اور راہب خانوں کی تصاویر آویزاں ہیں، جن کے وہ دورے کر چکے ہیں۔ اس گروپ کے کچھ ارکان کی رائے میں معاشرتی تبدیلی کے لیے طاقت کے بل پر ایک انقلاب کی ضرورت ہے جبکہ دیگر ارکان زاروں کے شاہی دور کی واپسی کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
مقدس زار
سن 2000ء میں روسی آرتھوڈوکس کلیسا نے قتل کر دیے جانے والے زار روس نکولائی دوئم اور ان کے اہل خانہ کو سینٹ کا درجہ دے دیا تھا۔ تاہم آرتھوڈوکس کلیسا کے پیروکاروں کی ایک مختصر تعداد نے ہی زار خاندان کے ارکان کے لیے مذہبی تقدیس کے اعلان کے بعد منعقد کردہ کلیسائی تقریب کے سلسلے میں خوشیاں منائی تھیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
’آرتھوڈوکس مسیحی عقیدہ یا موت‘
روسی شہریوں کی ایک بہت بڑی اکثریت مسیحیت کے آرتھوڈوکس عقیدے کی پیروکار ہے۔ اس کے باوجود ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ اس لیے اس عقیدے کے پرچار کی کوشش کرتی ہے کہ اس کے نزدیک اس مسیحی فرقے کو مزید پھیلنا چاہیے۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
7 تصاویر1 | 7
انتہائی دائیں بازو کی جماعت لا اینڈ جسٹس پارٹی PiS نے دوسری جانب اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایک علیحدہ مارچ کا انتظام کرے گی۔
اتوار کے روز پولینڈ اپنی آزادی کے سوویں سال گرہ منا رہا ہے۔ پولینڈ کی سرزمین سن 1918 تک مختلف سلطنتوں میں تقسیم رہی تھی۔