پولیو مہم سے سزا تک ، ڈاکٹر شکیل آفریدی کی کہانی
6 جون 2012ایک ڈاکٹر نے بچوں کو پولیو سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک مہم چلائی۔ بظاہر یہ ایک ایسا عمل ہے، جس کی صرف پذیرائی ہی کی جا سکتی ہے۔ یہ ڈاکٹر گزشتہ کئی برسوں سے پولیو بچاؤ مہم سے منسلک ہے اور یہ مرض اس کے آبائی ملک پاکستان میں ابھی بھی موجود ہے۔ اس ڈاکٹر پر لوگ بھروسہ کرتے ہیں، انہیں اس بات کا علم ہے کہ یہ ان کی مدد کرتا ہے اور ڈاکٹر کو بھی یہ سب کچھ اچھا لگتا ہے۔ لیکن اس کے مریضوں سے ایک بات پوشیدہ ہے کہ ڈاکٹر کو پولیو بچاؤ مہم کے لیے رقم فراہم کرنے والوں کی کچھ شرائط کو پوری کرنا ہے۔ اسے بدلے میں ہر مریض کے ڈی این اے اور اس کی نجی معلومات پیسہ دینے والے فریق کو فراہم کرنا ہیں۔ یہ عمل کسی بھی مریض کی معلومات خفیہ رکھنے کے ڈاکٹری اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ یہ مہم اتنی اہم تھی کہ ڈاکٹر نے آخر کار اسے چلانے کی حامی بھر لی۔ ایک بات ڈاکٹر کو بھی نہیں معلوم تھی اور وہ یہ کہ رقم فراہم کرنے والا انہی بچوں میں سے ایک کے باپ کی تلاش میں ہے۔ اور پھر ڈاکٹر اور ڈی این اے اُس پیسہ دینے والے کو اس کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں اور خفیہ طور پر رقم فراہم کرنے والا اس بچے کے باپ کو ہلاک کر دیتا ہے۔
حقیقت افسانے پر بھاری
جاسوسی ناول لکھنے والے کے لیے اس سے بہترین کہانی نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ کہانی سچی ہے اور گھڑی نہیں گئی ہے۔ یہ واقعہ 2 مئی 2011ء کو پاکستان میں پیش آیا جب ایک خفیہ امریکی آپریشن میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا۔ اس کہانی کے ایک مرکزی کردار ڈاکٹر شکیل آفریدی پر یہ واضح نہیں تھا کہ اس پولیو مہم کے پیچھے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کا ہاتھ تھا۔ ڈاکٹر آفریدی کو 33 سال کی سزا دینے پر مغربی ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ امریکی کانگریس نے شکیل آفریدی کی سزا کے ہر سال کے بدلے میں پاکستان کو دی جانے والی امداد میں ایک ملین کی کمی کر دی اور اس طرح پاکستانی امداد 33 ملین ڈالر کم ہو گئی۔
ہیرو یا غدار
پاکستان میں سیاسی امور کے ماہر فاروق سلہری کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست بہت گھمبیر ہے۔ خیبر پختوانخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت ہے اور وہ ڈاکٹر آفریدی کو ایک ہیرو کا درجہ دیتی ہے۔ ’’مذہبی جماعتیں بن لادن کی حامی ہیں اور افغانستان میں امریکی موجودگی کے خلاف ہیں۔ اس وجہ سے وہ ڈاکٹر کی کردار کشی کر رہی ہیں۔‘‘ پہلے کہا گیا کہ ڈاکٹر آفریدی نے ملک سے غداری کی ہے۔ اب بیانات سامنے آ رہے ہیں کہ وہ بدعنوان اور بدکردار ہے۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ وہ ڈاکٹر کے طور پر کام کرنے کا اہل ہی نہیں تھا اور یہ کہ اس نے نہ صرف طالبان کو مالی تعاون فراہم کیا بلکہ اُن کے زخمیوں کا علاج بھی کیا۔
مقدمہ ایک ڈھونگ
اس سلسلے میں قدامت پسندوں کی سنی گئی اور ڈاکٹر آفریدی پر مقدمہ ایک عام عدالت کی بجائے ایک قبائلی عدالت میں چلایا گیا۔ ایک ایسی عدالت، جہاں ملزم کو وکیل کرنے تک کی اجازت نہیں ہوتی۔ حیران کن طور پر ڈاکٹر آفریدی کو غداری کے مقدمے میں نہیں بلکہ لشکر طیبہ کے دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کرنے کے الزام میں قصور وار قرار دیا گیا۔ قبائلی عدالت کا موقف ہے کہ غداری کا مقدمہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ ملزم کے حوالے سے شواہد یا تو خفیہ دستاویزات سے ملے یا عینی شاہدین سے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر کے بقول ڈاکٹر آفریدی کا مقدمہ شفافیت پر مبنی نہیں ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر انصاف اقبال حیدر نے کہا کہ ڈاکٹر آفریدی کو دی جانے والی سزا کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔’’ قبائلی عدالتوں میں انصاف نہیں ہوتا۔ اس مقدمے میں جن اقدار کا خیال رکھا گیا ہے ان کا پاکستان کے آئین سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ اس حوالے سے فاروق سلہری کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کو ڈاکٹر آفریدی کو تاوان دے کر رہا کرانا چاہیے
اہم پالیسیوں کا شکار
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ڈاکٹر آفریدی کے معاملے کا تعلق پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں موجودہ کشیدگی سے بھی ہے۔ پاکستانی فوج کے سابق جنرل طلعت مسعود کے بقول ’’قبائلی عدالت کے فیصلے کو شکاگو میں نیٹو اجلاس پر پاکستانی غصے کے رد عمل کے طور پر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات معمول پر آتے ہی ڈاکٹر آفریدی کو معاف بھی کیا جا سکتا ہے‘‘۔ مبصرین کے خیال میں شکاگو میں نیٹو اجلاس کے موقع پر امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے پاکستانی ہم منصب آصف علی زرداری سے اکیلے میں ملاقات نہ کرتے ہوئے ایک طرح سے ان کی تذلیل کی تھی۔ اس طرز عمل کی واشنگٹن کو بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑ سکتی ہے لیکن ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ ابھی بھی خوش اسلوبی سے حل کرنے کے امکانات موجود ہیں۔
G.Lucas/ai/aa