1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پولیو مہم ، صوبہ سندھ کی لیڈی ہیلتھ ورکرز کا احتجاج

شادی خان سیف ، کراچی16 جنوری 2014

صوبہ سندھ کی لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اجرتوں کی عدم ادائیگی پر انسداد پولیو مہم کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا ہے۔ ان کو شکایت ہے کہ اس پُر خطر اور انتھک محنت والی ذمہ داری کے عوض انہیں کئی ماہ سے اجرت ہی نہیں دی جا رہی۔

تصویر: picture-alliance/dpa

پولیو وائرس اور پاکستان کا نام اب جیسے لازم و ملزوم ہو کر رہ گیا ہے۔ قدامت پسند حلقوں کی جانب سے اصولی مخالفت اور شکیل آفریدی کے معاملے نے انسداد پولیو کی مہم کو متاثر تو کیا ہی تھا اب نئی رکاوٹ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ہڑتال کی صورت میں سامنے آئی ہے۔

کراچی میں سراپا احتجاج خاتون ہیلتھ ورکرز کی نمائندوں کا کہنا تھا کہ عبوری مدت ملازمت کا عرصہ بیتے کئی برس ہو چکے مگر ان ہزاروں خواتین کو نہ تو مستقل ملازمت دی گئی ہے اور نہ ہی ان کی واجب الادا اُجرت دی گئی ہے۔ سندھ کی چار ہزار سے زائد ہیلتھ ورکز کی ترجمانی کرنے والی نسیم منیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس صورتحال میں بیس جنوری سے شروع ہونے والی انسداد پولیو مہم کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔’’جہاں ان سرکاری افسروں کو دنیا بھر کی سکیورٹی چاہیے ہوتی ہے وہاں ہم اکیلے کام کرتے ہیں اور سکیورٹی بھی نہیں مانگتے۔ ایک لڑکی اگر روزانہ کی اجرت ڈھائی سو روپے مانگتی ہے تویہ عمل اس قدر پیچیدہ ہے کہ پانچ سو روپے اس کی اپنی جیب سے لگ جاتے ہیں‘‘۔

گزشتہ برس مختلف عوامل کے سبب 35 لاکھ سے زائد بچوں تک انسداد پولیو کے حفاظتی قطرے نہیں پہنچ سکے تھے۔ لیڈی ہیلتھ ورکز اور حکومت کی چپقلش صورتحال میں مزید بگاڑ کا سبب بن سکتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

یاد رہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرزکا پروگرام مرحوم بینظیر بھٹو نے اپنی سابقہ حکومت میں شروع کیا تھا، جس کے تحت ملک بھر میں ایک لاکھ سے زائد خواتین کو بنیادی صحت سے متلعق معلومات و تربیت دے کر محلوں کی سطح پر عوامی خدمت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے جولائی 2012 کے ایک حکم نامے میں حکومت سے ان خواتین کی ملازمتیں مستقل کرنے کا کہا تھا مگر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد اب وفاق اور صوبوں میں بظاہر یہ طے نہیں ہوپارہا کہ ان کے اخراجات کس کے خزانے سے پورے کیے جائیں ؟

کراچی میں دسمبر 2012 ء میں انسداد پولیو مہم کی چار خواتین کو فائرنگ کرکے قتل بھی کیا جاچکا ہے۔ پاکستان میں 2013ء کے دوران 83 بچے پولیو کے وائرس کا شکار ہوئے، جن میں سے نو صوبہ سندھ کے بسنے والے تھے۔ سال 2012 میں یہ تعداد 58 تھی۔ گزشتہ برس پاکستان کے قبائلی علاقے ( فاٹا) میں پولیو کے سب سے زیادہ 59 کیسز کا اندراج کیا گیا۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ گھمبیر صورتحال شمالی و جنوبی وزیرستان کے باسیوں کو درپیش ہے۔

پاکستان میں 2013ء کے دوران 83 بچے پولیو کا شکار تھےتصویر: picture-alliance/dpa

سال رواں کے دوران پولیو کا پہلا رپورٹڈ شکار بھی سندھ کے دارالحکومت کراچی کا ایک نونہال ہے۔ عالمی ادارہء صحت کے مطابق گزشتہ برس مختلف عوامل کے سبب 35 لاکھ سے زائد بچوں تک انسداد پولیو کے حفاظتی قطرے نہیں پہنچ سکے تھے۔ لیڈی ہیلتھ ورکز اور حکومت کی چپقلش صورتحال میں مزید بگاڑ کا سبب بن سکتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ وائرس بالخصوص پاکستان، نائجیریا اور افغانستان ہی میں سرگرم ہے جبکہ دنیا کے دیگر ممالک اپنے ہاں سے اس کا تقریباً صفایا کر چکے ہیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستان میں عالمی ادارہء صحت اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی لاکھوں ڈالرز کی امداد کے بل بوتے پر ہر برسہابرس سے انسداد پولیو کے حفاظتی قطرے گھر گھر جاکر بچوں کو پلائے جارہے ہیں۔ لیکن ہنوذ دلی دور است۔


ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں