پولیو پاکستان کا مخصوص المُلک مرض
27 جنوری 2011اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان اور اس کے پڑوسی ملک افغانستان کی ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی سرحدیں ہیں۔ دونوں ملکوں کی طویل سرحد بڑی مسام دار ہے، جس کے ذریعے بچے بلا روک ٹوک اپنی آر پار آمد و رفت کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں دونوں ملکوں نے پولیو کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی بھی تیار کی ہے۔
پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ رشید جمعہ کے مطابق ہر سال تقریباً دو لاکھ بچے پاک افغان سرحدیں پار کرتے ہیں۔ ان میں ہزاروں ایسے بچے بھی شامل ہیں، جنہیں پولیو کے حفاظتی قطرے نہیں دیے گئے ہوتے۔ پاکستان اور افغانستان کے وزرائے صحت نے ایک ’کراس بارڈر کوآرڈینیشن کمیٹی‘ بھی تشکیل دی ہے۔
یہ کمیٹی سرحد کے آر پار بچوں کی آمد و رفت کے سبب پولیو کے وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مشترکہ طور پر کام کرے گی اور اس کی کوشش ہو گی کہ سرحد پار کرنے والے بچوں کو پولیو کے ٹیکے لگانے کی مہم چلائی جائے۔ اس کمیٹی نے سرحدی علاقوں میں ایک درجن ایسے کیمپ لگانے کا فیصلہ بھی کیا ہے، جہاں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو کے ٹیکے لگائے جائیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ کابل اور اسلام آباد حکومتوں نے طالبان عناصر سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اُن سے اس مہم میں معاونت کی اپیل کی جائے گی تاکہ سرحدی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ حد تک پولیو کے حفاظتی ٹیکے لگانے کی مہم چلائی جا سکے۔ پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ رشید جمعہ کے بقول، ’ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کریں گے، تاکہ ہمیں اُن کی سپورٹ بھی حاصل ہو‘۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے چند صوبوں میں طالبان کے ساتھ تعاون کے اچھے نتائج نکلے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت WHO کے زیر انتظام قائم کردہ پولیو کے خاتمے کی پیش قدمی کے اندازوں کے مطابق سن 2010 میں پاکستان میں پولیو کے 140 کیس رجسٹر کیے گئے۔ دوسری نمبر پر بھارت رہا، جہاں پولیو کے 41 واقعات ریکارڈ ہوئے جبکہ افغانستان میں 24 اور نائجیریا میں 18 ایسے واقعات کا اندراج کیا گیا۔
اس کے برعکس 2009 میں بھارت کا شمار پوری دنیا میں پولیو کے حوالے سے سب سے خاص ملک میں ہوتا تھا، کیونکہ تب وہاں اس بیماری کے 694 نئے واقعات دیکھے گئے تھے۔ دوسرے نمبر پر نائجیریا اپنے 388 کیسز کے ساتھ اور پاکستان ایسے 86 کیسز کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا۔ سن 2009 میں افغانستان میں پولیو کے 31 نئے واقعات درج کیے گئے تھے۔
عالمی ادارہ صحت نے انہی چار ممالک کو دنیا کے پولیو فری ممالک تک اس بیماری کے وائرس کی منتقلی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
سن 2010 میں پاکستان میں رجسٹر ہونے والے 140 نئے پولیو کیسز میں سے 72 فاٹا کہلانے والے قبائلی علاقوں میں دیکھنے میں آئے۔ ان علاقوں سمیت صوبے خیبر پختونخوا میں پولیو کی روک تھام پر مامور ایک افسر مجاہد حسین کا کہنا ہے کہ وہاں پر بچوں کو پولیو کے ٹیکے لگانے یا ڈراپس دینے کا کام کار دگر ہے۔ مجاہد حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی 2400 کلومیٹر طویل سرحد دراصل سب سے اہم وجہ ہے، ہزاروں بچوں کو پولیو کے مرض سے تحفظ فراہم نہ کر سکنے کی۔ ان کے مطاق P3 وائرس افغانستان میں پایا جاتا ہے اور افغان بچوں سے پاکستان منتقل ہوتا ہے۔ حُسین نے بتایا کہ 2009 میں پاکستان میں P3 وائرس کے جو 33 کیسز منظر عام پر آئے، اُن میں سے 12 افغان مہاجر بچوں میں دیکھے گئے تھے۔
ماہرین کے مطابق پولیو کا وائرس بچوں کے اعصابی خلیات اور دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کو بُری طرح متاثر کرتا ہے۔ عشروں سے جنگ و جارحیت کے شکار ملک افغانستان میں اب تک اس کے خلاف مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے۔
2007 میں میلبورن کی ایک یونیورسٹی کا ایک پاکستانی طالب علم خیبر ایجنسی کے نزدیک پاک افغان سرحدی علاقوں کے ایک دورے پرگیا تھا۔ وہاں سے آسٹریلیا واپسی پر اُس کے طبی معائنے سے پتہ چلا کہ اُس پر پولیو کے وائرس کا حملہ ہو چکا تھا۔ اُس کے بعد اس کیس پر مزید طبی تحقیق کی گئی، جس کے نتائج سے پتہ چلا کہ یہ وائرس افغانستان ہی میں پایا جاتا ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک