1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

پوٹن اور جن پنگ میں ملاقات: روس چین سے عسکری مدد کا خواہاں

16 مئی 2024

چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے روسی ہم منصب کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تعلقات 'امن کے لیے سازگار' ہیں۔ چھ ماہ میں پوٹن کا یہ دوسرا دورہ بیجنگ ہے اور توقع ہے کہ وہ فوجی اور مالی امداد پر توجہ دیں گے۔

شی جن پنگ اور پوٹن ملاقات کرتے ہوئے
ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ کانفرنس کی جس میں روسی صدر پوٹن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے یوکرین جنگ کے بارے میں بات کی ہےتصویر: Kremlin.ru/REUTERS

 ولادیمیر پوٹن دوبارہ روس کے صدرمنتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے بیرون ملک دورے پر جمعرات کو بیجنگ پہنچے۔ روسی رہنما کا یہ دو روزہ دورہ گزشتہ چھ ماہ میں چین کا دوسرا دورہ ہے۔

یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے چین روس پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے، شولس

ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ کانفرنس کی جس میں روسی صدر پوٹن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے یوکرین جنگ کے بارے میں بات کی ہے۔

خلیج عمان میں ایرانی، روسی اور چینی بحری افواج کی مشترکہ مشقیں شروع

انہوں نے یوکرین پر مذاکرات کے لیے چین کا شکریہ ادا کیا اور کہا، ''ہم یوکرین کے بحران کو حل کرنے کی کوششوں پر چین کے شکر گزار ہیں اور دونوں فریق بحران کا سیاسی حل'' چاہتے ہیں۔

روسی اور چینی صدور نے امریکی 'مداخلت' کی مذمت کی

چینی صدر کا کہنا تھا کہ جہاں تک یوکرین جنگ کا معاملہ ہے، ''چین کا موقف واضح اور مستقل رہا ہے، جس میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی پاسداری بھی شامل ہے۔''انہوں نے مزید کہا، ''چین یورپ میں امن اور استحکام کی جلد بحالی دیکھنے کی توقع  رکھتا ہے۔''

مغربی پابندیوں کے بعد چین اور بھارت روسی تیل کے بڑے خریدار

پوٹن ہمسایہ ملک یوکرین پر حملہ کرنے کے دو سال سے زیادہ عرصے کے بعد اپنے سابق مغربی تجارتی شراکت داروں سے الگ تھلگ پڑ چکے ہیں اور چونکہ جنگ اور اس سے متعلقہ پابندیاں جاری ہیں، جن کا خاتمہ نظر نہیں آ رہا، اس لیے وہ اپنے چینی ہم منصب صدر شی جن پنگ سے فوجی اور مالی مدد کے خواہاں ہیں۔

چین نے اپنے جوہری ہتھیاروں میں تیز رفتار توسیع کی ہے، امریکہ

صدر پوٹن جب بیجنگ پہنچے، تو چینی حکام کے ساتھ ساتھ فوجی اعزازی دستے نے بھی ان کا شاندار خیر مقدم کیا۔ اس کے بعد بیجنگ کے مرکزی ہال آف دی پیپل کے باہر ایک شاندار استقبالیہ تقریب میں چینی صدر شی جن پنگ نے ان کا خیر مقدم کیا۔

شی جن پنگ نے پوٹن سے کہا کہ چین روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ دنیا میں انصاف اور شفافیت کو برقرار رکھا جا سکےتصویر: Sergei Bobylev/TASS/dpa/picture alliance

دونوں رہنماؤں نے مزید کیا کہا؟

روس اور چین کے سرکاری میڈیا دونوں نے ہی ان کی آمد کی بھرپور کوریج کی اور پھر دونوں رہنماؤں کے بیانات بھی نشر کیے گئے، جس میں انہوں نے اپنے تعلقات کو سراہا۔

اس موقع پر پوٹن نے کہا، ''روس اور چین کے درمیان تعلقات موقع پرستی پر مبنی نہیں ہیں اور نہ ہی کسی کے خلاف ہیں۔ بین الاقوامی معاملات میں ہمارا تعاون، بین الاقوامی میدان میں استحکام لانے والے عوامل میں سے ایک ہے۔

اس حوالے سے بیجنگ کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صدر شی جن پنگ نے پوٹن سے کہا کہ ''چین اور روس کے تعلقات نہ صرف دونوں ممالک کے بنیادی مفادات میں ہیں۔۔۔۔۔ بلکہ امن کے لیے بھی سازگار ہیں۔''

انہوں نے مزید کہا کہ چین روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ دنیا میں انصاف اور شفافیت کو برقرار رکھا جا سکے۔

پوٹن نے اپنے دورے سے قبل چینی خبر رساں ایجنسی ژنہوا کو بتایا تھا کہ ''یہ ہمارے ممالک کے درمیان اعلی سطحی غیر مثالی اسٹریٹیجک شراکت داری ہے کہ جس کی وجہ سے دوبارہ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، سب سے پہلے ریاست چین کے دورے کا انتخاب کیا گیا۔''

گہری دوستی اور اتحاد

دونوں پڑوسی ملکوں نے سن 2022 میں ہونے والی ملاقات کے دوران اپنے تعلقات کو ''لا محدود'' قراردیا تھا، جب کہ اسی دوران باقی دنیا نے یوکرین پر حملہ کرنے کی وجہ سے پوٹن کے فیصلے کو مسترد کر دیا تھا۔

بیجنگ نے سستی گیس اور تیل حاصل کر کے ماسکو کی حمایت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ تاہم چین تیزی سے مغربی ممالک کے دباؤ میں آ رہا ہے اور اس کے بینکوں کو امریکی پابندیوں کے خطرے کا سامنا ہے، جو بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں تک چینی رسائی کو روک سکتی ہیں۔

سفر سے قبل کریملن نے کہا تھا کہ صدر پوٹن اور شی جن پنگ اپنی اقوام کے درمیان ''جامع شراکت داری اور تزویراتی تعاون'' پر بات چیت کے دوران ''روس اور چینی تعاون میں ترقی کے کلیدی شعبوں کی وضاحت کریں گے نیز  بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر خیالات کا تبادلہ

 کریں گے۔

گزشتہ ماہ شی جن پنگ اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں امریکہ نے ''یوکرین میں جارحیت کی وحشیانہ جنگ'' کی حمایت پر بیجنگ کو خبردار کیا تھا۔

پوٹن کے دورے سے قبل روسی وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف نے دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماسکو اور بیجنگ ''ایک زیادہ منصفانہ اور جمہوری عالمی نظام کے قیام کی کوششوں کے لیے اپنی برتری کو برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔''

دونوں رہنماؤں نے تاحیات اقتدار پر برقرار رکھنے کے مقصد سے حال ہی میں اپنے اپنے ممالک کے آئین کو تبدیل بھی کیا ہے۔ ان پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو دھمکانے کے لیے اپنی فوجی طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)

پوٹن چین کے ساتھ گہرے اقتصادی تعلقات کے خواہاں

01:41

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں