ماسکو حکومت نے بتایا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہفتے کے دن ٹیلی فون پر بات کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ کی طرف سے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد ان دونوں رہنماؤں کا یہ پہلا رابطہ ہو گا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ستائیس جنوری بروز جمعہ کریملن کے حوالے سے بتایا ہے کہ متوقع طور پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن ہفتے کے دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات چیت کر سکتے ہیں۔ اگر یہ دونوں رہنما رابطہ کرتے ہیں تو بیس جنوری کو صدر کا حلف اٹھانے والے ٹرمپ کا پوٹن کے ساتھ یہ پہلا سرکاری رابطہ ہو گا۔ امریکی انتخابات میں مداخلت کے احکامات خود پوٹن نے دیے؟
روسی نیوز ایجنسی RIA نے بتایا ہے کہ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے ایک نمائندے کے ایک سوال کے جواب میں کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے تصدیق کی ہے کہ دونوں صدور کا رابطہ ہو سکتا ہے۔ قبل ازیں روسی حکومت نے کہا تھا کہ ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ پوٹن اور ٹرمپ کب رابطے کریں گے۔
ٹرمپ کی طرف سے گزشتہ برس کے امریکی صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد نومبر میں روسی صدر پوٹن نے ٹرمپ کو ٹیلی فون کیا تھا۔ اس مبارکبادی ٹیلی فون کے دوران دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا تھا کہ امریکا اور روس کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی خاطر اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ کریمیا کے بحران کی وجہ سے واشنگٹن اور ماسکو کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
ولادیمیر پوٹن کے مختلف چہرے
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Novosti/RIA Novosti/Kremlin
7 تصاویر1 | 7
یہ امر اہم ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی اور صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن نے ٹرمپ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ روسی صدر پوٹن کی ’کٹھ پتلی‘ ہیں۔ الیکشن کے بعد ایسے الزامات بھی عائد کیے گئے کہ روسی ہیکرز نے ہلیری کلنٹن اور ڈیموکریٹ پارٹی کے کمپیوٹرز ہیک کیے اور انہوں نے عوامی رائے پر اثرانداز ہوتے ہوئے ٹرمپ کو جتوانے کی کوشش کی۔
گزشتہ برس دسمبر میں اس تناظر میں سابق امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے روس پر پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔ تاہم روس ان الزامات کو مسترد کرتا ہے، اسی طرح ٹرمپ بھی کہتے ہیں کہ ان کی کامیابی میں ماسکو کا ہاتھ نہیں بلکہ عوام نے انہیں اپنا نمائندہ چنا ہے۔ ٹرمپ اپنے دور اقتدار میں روسی حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔