پوٹن ’جنگی مجرم‘ ہیں، ان پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے، بائیڈن
5 اپریل 2022
یوکرینی قصبے بُوچہ میں دریافت شدہ اجتماعی قبر کی وجہ سے اس جنگ کے خلاف پوری دنیا میں غم و غصے کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔ عالمی طاقتیں اس معاملے پر روس کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر 'جنگی جرائم‘ کے ارتکاب کا الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ چلائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جو بائیڈن نے بُوچہ میں کئی شہریوں کی ہلاکت اور اس واقعے کے تصویری شواہد سامنے آنے کے بعد شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ بائیڈن نے چار اپریل کی شام صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''آپ نے دیکھا یوکرینی شہر بُوچہ میں کیا ہوا؟ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پوٹن ایک جنگی مجرم ہیں۔‘‘
بُوچہ کییف کے نواح میں واقع ایک قصبہ ہے، جو یوکرینی افواج نے جنگ کے دوران روسی فوجیوں سے واپس چھین لیا تھا۔ وہاں ایک اجتماعی قبر سے کئی ایسے انسانوں کی لاشیں ملی ہیں، جن کو رسیوں سے باندھا گیا اور قریب سے فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔ ان شواہد کی موجودگی امریکہ اور یورپ کی طرف سے روس کے خلاف اضافی پابندیاں عائد کیے جانے کے لیے کافی ہے۔
صدر بائیڈن کا کہنا ہےکہ انہیں اس معاملے پر مزید معلومات حاصل کرنا ہیں تاکہ روس کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جا سکے۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ وہ یوکرین کو روس کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لیے درکار ہتھیار فراہم کرنے پر رضا مند ہیں۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے بُوچہ میں ہونے والی ہلاکتوں کو یوکرینی عوام کی نسل کشی قرار دیا ہے۔ تاہم روس کی جانب سے بُوچہ میں اجتماعی قتل سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ یہ خود یوکرین کی جانب سے روس کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اس جنگی جرم کی تفتیش کے لیے مختلف ذرائع سے معلومات جمع کر رہے ہیں اور یہ معاملہ بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اٹھایا جائے گا۔ انہوں نے ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ روس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت اس معاملے کی شفاف چھان بین کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ تاہم جیک سلیوان نے کہا کہ امریکہ کو اس اجتماعی قتل کو نسل کشی قرار دینے سے پہلے ابھی مزید شواہد اور چھان بین کی ضرورت ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب کو 'جنگی مجرم‘ کہا ہے۔ 24 فروری کے روز جب روس نے یوکرین میں فوجی مداخلت کی، تب سے ہی امریکہ اور روس کے تعلقات بہت کشیدہ ہو چکے ہیں۔ امریکہ کی یہ کوشش بھی ہے کہ روس کے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے اخراج کو یقینی بنایا جائے۔
یوکرین: تباہی اور شکستہ دلی کے مناظر
روسی فوج کی طرف سے یوکرین پر تقریباﹰ چار ہفتوں سے حملے جاری ہیں۔ جنگ کی صورتحال میں شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جتنی طویل جنگ اتنی ہی زیادہ مشکلات
ایک عمررسیدہ خاتون اپنے تباہ شدہ گھر میں: یوکرین کے شہری جنگ کے سنگین اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباﹰ اگر صورتحال اگلے بارہ ماہ تک ایسے جاری رہی تو نوے فیصد ملکی آبادی غربت کا شکار ہو جائے گی۔ جنگی حالات یوکرینی معیشت کو دو عشرے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
تصویر: Thomas Peter/REUTERS
بھوک کے ہاتھوں مجبور
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں بھوک سے مجبور عوام نے ایک سپرمارکیٹ لوٹ لی۔ خارکیف، چیرنیہیف، سومی، اور اوچترکا جیسے شمالی مشرقی اور مشرقی شہروں کی صورتحال بہت خراب ہے۔ مقامی رہائشیوں کو مسلسل داغے جانے والے روسی میزائلوں اور فضائی بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Andrea Carrubba/AA/picture alliance
تباہی میں مدد کی پیشکش
دارالحکومت کییف میں ایک فائر فائٹر روسی حملوں سے تباہ شدہ عمارت کی رہائشی کو تسلی دے رہی ہے۔ اس امدادی کارکن کو کئی یوکرینی شہریوں کے ایسے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف مسلح افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ رہائشی مقامات کی تباہی سمیت روزانہ شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جنگ کی تاریکی میں جنم
یہ تصویر ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کی ہے، جس کی پیدائش خارکیف میں واقع ایک عمارت کی بیسمینٹ میں بنائے گئے عارضی میٹرنٹی سنٹر میں ہوئی ہے۔ کئی ہسپتال روسی فوج کی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں ماریوپول کا ایک میٹرنٹی ہسپتال بھی شامل ہے۔
تصویر: Vitaliy Gnidyi/REUTERS
مایوسی کے سائے
یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپول کے ہسپتال بھر چکے ہیں، ایسے میں گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج ہسپتال کے آنگن میں ہی کیا جارہا ہے۔ کئی دنوں سے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ یوکرینی حکام محصور شدہ شہروں میں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Evgeniy Maloletka/AP/dpa/picture alliance
خوراک کی ضرورت
علیحدگی پسندوں کے زیرانتظام ڈونیسک خطے کے شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک اور ڈونیسک میں شدید لڑائی جاری ہے۔ روسی وزارت دفاع اور علیحدگی پسندوں کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
خاموش ماتم
مغربی شہر لویو میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جانے پر افسردہ ہیں۔ اسی طرح کئی شہری بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق 24 فروری سے شروع ہونے والے روسی حملوں سے اب تک تقریباﹰ 724 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں 42 بچے بھی شامل ہیں۔
کییف میں ایک دکان پر روسی گولہ باری کے بعد یہ ملازم ملبہ صاف کر رہا ہے۔ یہ اسٹور کب دوبارہ کھل سکے گا؟ معمول کی زندگی کی واپسی کب ہوگی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔