امریکی صدر نے عندیہ دیا ہے کہ وہ آئندہ دنوں میں روسی صدر کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کر سکتے ہیں۔ امریکی و روسی صدور کے درمیان یہ ملاقات جی ٹوئنٹی سمٹ کے حاشیے میں ہونے والی ہے۔
اشتہار
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روس اور یوکرائن کے درمیان پیدا ہونے والے سمندری تنازعے کے تناظر میں بیونس آئرس میں وہ اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ طے شدہ ملاقات کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یہ ملاقات ترقی یافتہ اور ابھرتی اقتصادیات کے حامل بیس ممالک کے سالانہ سربراہ اجلاس کے حاشیے میں طے ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے روسی صدر سے ملاقات کی منسوخی کو اخبار واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق اس ملاقات کا انحصار اُن کے قومی سلامتی کے مشیران کی رپورٹ پر ہے کہ وہ یوکرائنی بحری جہازوں پر روسی قبضے کو کس انداز میں لیتے ہیں۔
روس اور یوکرائن کے درمیان بحیرہ آزوف میں سمندری تنازعہ پیدا ہونے کے بعد روس نے یوکرائن کو مکمل جنگ کی دھمکی بھی دی ہے۔ اس تناظر میں یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو نے کہا ہے کہ اگر تنازعے کی کیفیت جوں کی توں رہی تو یہ علاقے میں انتہائی ڈرامائی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بننے کے علاوہ قریبی ریاستوں میں مزید تناؤ کا باعث بن سکتی ہے۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یوکرائنی سرحد پر روسی فوج کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح زمینی فوجی دستوں کے ساتھ ٹینکوں کی تعداد بھی تین گنا کر دی گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار یوکرائن کے صدر نے اپنے خفیہ اداروں کی رپورٹوں کے تناظر میں بتائے ہیں۔
روسی حکام نے بتایا ہے کہ صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرائنی حکومت کی جانب سے سرحدی علاقوں میں مارشل لا لگانے کے فیصلے پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے ٹیلیفون پر گفتگو بھی کی ہے۔ جرمن چانسلر کے ساتھ بات چیت کے دوران پوٹن نے یہ بھی کہا کہ جرمنی یوکرائن کو مزید ایسے سخت اقدامات سے گریز کرنے کی تلقین کرے۔ یوکرائنی حکومت نے مارشل لا کے نفاذ کے فیصلے کے علاوہ اپنی فوج کو چوکس رہنے کا حکم بھی دیا ہے۔
اُدھر جرمن وزیر دفاع ارُوزلا فان ڈیئر لائن نے روس سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر یوکرائنی نیوی کے سیلرز کو رہا کرے۔ جرمن وزیر دفاع نے روس اور یوکرائن سے کہا ہے کہ وہ کشیدہ صورت حال میں کمی لانے کے لیے مثبت اقدامات کریں۔ روسی بحریہ نے ان سیلرز کو گزشتہ ویک اینڈ پر حراست میں لیا تھا اور کریمیا کی ایک عدالت نے انہیں دو ماہ کے لیے جیل بھیج دیا ہے۔
ولادیمیر پوٹن کے مختلف چہرے
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔