1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پوٹن، شی ملاقات: روس اور چین تعلقات کے'نئے دور' کا آغاز

22 مارچ 2023

چینی صدر شی جن پنگ نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ "لامحدود" شراکت داری کو مستحکم کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ چند روز قبل ہی پوٹن کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت نے گرفتاری وارنٹ جاری کیا تھا۔

Russlands Putin führt Gespräche mit Chinas Xi in Moskau
تصویر: SERGEI KARPUKHIN/AFP

 

چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ انہوں نے اپنی روسی ہم منصب کے ساتھ ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے ہیں جو باہمی تعاون کے "ایک نئے دور" کا آغاز ہے۔ دونوں رہنماؤں نے یوکرین بحران کے حل کے لیے "ذمہ دارانہ مذاکرات" کی بھی اپیل کی۔

کریملن میں پوٹن کے ساتھ بات چیت کے بعد شی جن پنگ نے کہا، "ہم نے اسٹریٹیجک شراکت داری اور باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے ایک بیان پر دستخط کیے ہیں، جو ہمیں ایک نئے دور میں داخل کریں گے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ چین اور روس اپنے وسیع تر "عملی تعاون" کو آگے بڑھانے کے لیے مل کر کام کریں گے۔

روسی صدر پوٹن کا اس موقع پر کہنا تھا کہ "تمام معاہدے ہوگئے ہیں" اور ماسکو اور بیجنگ کے درمیان اقتصادی تعلقات روس کی "ترجیحات" تھیں۔

شی جن پنگ سربراہی اجلاس کے لیے ماسکو میں

چینی صدر نے ماسکو کا دورہ ایسے وقت کیا جب چند روز قبل ہی بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اپنے پڑوسی ملک میں پوٹن کے مبینہ جرائم کے لیے گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا۔ حالانکہ کہا جارہا ہے کہ بھاری جانی نقصانات کے باوجود روسی فوج کو اس جنگ میں اپنے مقصد میں بہت کم کامیابی ملی ہے۔

روس کے یوکرین پر فوجی حملے سے کوئی تین ہفتے قبل گزشتہ برس فروری میں دونوں رہنماوں نے"لامحدود" شراکت داری کو مستحکم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

یوکرین کے بحران کے حوالے سے چینی رہنما کا کہنا تھا کہ"بیجنگ اقوام متحدہ کے اصولوں کا احترام کرتا ہے اور یوکرین جنگ کے پرامن حل پر زور دیتا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا،"ہم ہمیشہ امن اور مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔"

چین نے یوکرین سے افواج کی واپسی اور بالآخر جنگ بندی کے متعلق ایک 12 نکاتی تجویز پیش کی ہے، حالانکہ اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ جنگ کو کس طرح ختم کیا جائے گا۔تصویر: Russian Presidential Press Office/AP/picture alliance

مشترکہ بیان

شی جن پنگ اور پوٹن کے درمیان ملاقات کے بعد جاری ایک مشترکہ بیان میں حسب معمول مغرب پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ واشنگٹن عالمی استحکام کو نقصان پہنچانے اور نیٹو ایشیا بحرالکاہل میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔

پوٹن کا کہنا تھا کہ تصادم کو ختم کرنے کی چینی تجویز کو امن حل کی بنیاد کے طورپر استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن مغرب اور کییف اس کے لیے اب بھی تیار نہیں ہیں۔

پوٹن نے کہا،"چین نے جو امن منصوبہ پیش کیا ہے اس کی بہت سی باتیں روسی موقف سے ہم آہنگ ہیں اور اگرمغرب اور کییف تیار ہوں تو اسے پرامن حل کے لیے بنیاد کے طورپر استعمال کیا جاسکتا ہے۔"

آئی سی سی کی طرف سے روسی صدر کی گرفتاری کے وارنٹ جاری

پوٹن نے مزید کہا، "تاہم ہمیں ان کی جانب سے اب تک کسی طرح کی رضامندی کی علامت نہیں نظرآئی ہے۔"

چین نے یوکرین سے افواج کی واپسی اور بالآخر جنگ بندی کے متعلق ایک 12 نکاتی تجویز پیش کی ہے، حالانکہ اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ جنگ کو کس طرح ختم کیا جائے گا۔

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے چینی رہنما کی روسی رہنما سے ملاقات کا خیر مقدم کیا ہےتصویر: Ukrainian Presidentia/ZUMA Wire/IMAGO

کییف کا ردعمل

امریکہ نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ بیجنگ نے یوکرین میں روسی فوجی حملے کی اب تک مذمت نہیں کی ہے اور کہا کہ جنگ بندی سے روس کو علاقائی فائدہ ہوگا اور پوٹن کی فوج کو ازسرنو منظم ہونے کے لیے زیادہ وقت مل جائے گا۔

وائٹ ہاوس نے پوٹن اور شی جن پنگ کی ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چین کا موقف غیر جانبدارانہ نہیں ہے۔ اس نے بیجنگ سے اپیل کی کہ وہ یوکرین کے خودمختار علاقے سے اپنی فوج کو واپس بلانے نیز جنگ ختم کرنے کے لیے ماسکو پر دباو ڈالے۔

باخموت پر روسی قبضے سے جنگ کا پانسہ نہیں پلٹے گا، امریکی وزیر دفاع

دریں اثنا کییف نے چینی رہنما کی روسی رہنما سے ملاقات کا خیر مقدم کیا ہے تاہم کہا کہ روس کو یوکرین سے اپنی فوجیں واپس نکالنی ہوں گی اور یوکرین کی علاقائی سالمیت کا احترام کرنا ہوگا۔

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے منگل کے روز کہا کہ کییف نے چین کو مشورہ دیا ہے کہ بیجنگ امن فارمولے میں یوکرین میں روس کی جنگ کو ختم کرنے کی بات شامل کرے۔" تاہم ہم اب بھی ان کے جواب کے منتظر ہیں۔"

کیا روس اور چین آرکٹک کو فتح کرنے کے لیے تیار ہیں؟

02:42

This browser does not support the video element.

 ج ا/ ص ز  (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں