1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پوٹن مخالف واگنر گروپ کے رہنما پريگوژن طیارہ حادثے میں ہلاک

24 اگست 2023

نجی فوج واگنر گروپ کے مطابق اس کے سربراہ یوگینی پريگوژن ایک نجی جیٹ حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ انہوں نے روس کو اس حادثے کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ماسکو نے بھی تصدیق کی ہے کہ پريگوژن حادثے کا شکار طیارے میں موجود تھے۔

جہاز میں سات مسافر اور عملے کے تین افراد شامل تھے اور تمام ہلاک ہو گئے
جہاز میں سات مسافر اور عملے کے تین افراد شامل تھے اور تمام ہلاک ہو گئےتصویر: Ostorozhno Novosti/Handout/REUTERS

واگنر سے منسلک میڈیا نے بتایا کہ نجی فوجی گروپ واگنر کے بانی یوگینی  پريگوژن اس کمرشل پرائیوٹ جیٹ پر سوار تھے جو بدھ کو روس میں گر کر تباہ ہوگیا۔ اطلاعات کے مطابق طیارے میں سوار تمام دس افراد ہلاک ہو گئے۔

روسی حکام کے مطابق بدھ کی شام ماسکو کے شمال میں گرکر تباہ ہونے والے ایک پرائیوٹ طیارے میں سوار مسافروں کی فہرست میں یوگینی  پريگوژن کا نام بھی شامل ہے۔ یہ طیارہ ماسکو سے سینٹ پیٹرز برگ جارہا تھا کہ ٹیور ریجن میں کوچیکینو گاوں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔

روسی خبر رساں ایجنسی آر آئی اے نووستی نے بتایا کہ جہاز میں سات مسافر اور عملے کے تین افراد شامل تھے اور تمام ہلاک ہو گئے۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد جائے حادثہ سے آٹھ لاشیں مل چکی ہیں۔

روس کی ایوی ایشن ایجنسی روسا وتاسیا نے ایک بیان میں کہا، "ایئر لائن کے مطابق ایمبیریر 135 طیارے پر درج ذیل مسافر سوار تھے... یوگینی پریگوزن۔"

روساوتاسا کے مطابق پریگوزن کے ایک ساتھی اور ان کی کارروائیوں کے منتظم دمیتری یوتکن بھی اس ہوائی جہاز پر سفر کررہے تھے۔

طیارہ ماسکو سے سینٹ پیٹرز برگ جارہا تھا کہ ٹیورریجن میں کوچیکینو گاوں کے قریب گر کر تباہ ہو گیاتصویر: Investigative Committee of Russia/Handout/REUTERS

'ہیرو اور محب وطن'

واگنر سے وابستہ ٹیلی گرام چینل گرے زون نے  پريگوژن کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے انہیں ایک ہیرو اور محب وطن قرار دیا۔ پوسٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ وہ "روس کے غدار" نامعلوم افراد کے ہاتھوں مارے گئے۔

روس کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کہا کہ ایمبیریر طیارہ حادثے کی انکوائری شروع کردی گئی ہے۔ اس نے کہا کہ گزشتہ 20 سالوں میں صرف ایک ایمبریر طیارے کے حادثے کا ریکارڈ ہے اور اس کا تعلق تکنیکی خرابی سے نہیں تھا۔

ڈی ڈبلیو روس کے بیورو چیف جوری ریشیتو کا کہنا تھا کہ،"ہو سکتا ہے کہ یہ حادثہ کوئی المناک حادثہ نہ ہو۔ وہ کریملن کے لیے کافی اہم بن گئے تھے۔ وہ اتنے طاقتور ہو گئے تھے کہ ناقابل برداشت بن گئے تھے اور انہوں نے یوکرین میں جنگ کے حوالے سے عوامی سطح پر اور بلند آواز میں شبہات کا اظہار کرنے کی جرأت کی تھی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ، "اگر  پريگوژنکی موت کی تصدیق ہوجاتی ہے تو میں تصور کرسکتا ہوں کہ واگنر گروپ کا اب ایک جنگجو قوت کے طور پر وجود نہیں رہ سکے گا۔ "

کیا روس پر پوٹن کی گرفت کمزور ہو رہی ہے؟

 پريگوژننے جب 23جون کو ماسکو کے خلاف مختصر مدت کی بغاوت میں اپنے نجی فوجیوں کی قیادت کی تھی، اس کے بعد سے ہی ان کے ٹھکانے کے بارے میں سوالات کیے جا رہے تھے۔

دو روز قبل ٹیلی گرام پر جار ی کیے گئے ایک مبینہ ویڈیو میں  پريگوژنکو دکھایا گیا تھا۔ جس میں وہ افریقہ میں کسی مقام پر نظر آرہے تھے۔ بغاوت کے بعد یہ ان کی پہلی ویڈیو تھی۔

روس کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کہا کہ ایمبیریر طیارہ حادثے کی انکوائری شروع کردی گئی ہےتصویر: Ostorozhno Novosti/Handout/REUTERS

 پريگوژنکی موت پر کوئی حیرت نہیں، امریکہ

وائٹ ہاوس نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نے بھی خبریں دیکھی ہیں اور اگران کی تصدیق ہوتی ہے تو کسی کو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے۔"

 صدر جو بائیڈن نے بھی اس حوالے سے میڈیا سے بات چیت کی۔بائیڈن نے کہا،" حقیقت کے طور پر مجھے نہیں معلوم کہ ہوا کیا ہے، لیکن میں حیرت زدہ ہوں۔ روس میں ایسا بہت کچھ نہیں ہوتا جس میں (صدر) پوٹن کا ہاتھ نہیں ہوتا۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اس کا خاطر خواہ جواب کیا ہو سکتا ہے۔"

یوکرین کے صدر کے مشیر میخائیلوف پوڈولیاک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے بیان میں کہا، "یہ واضح تھا کہ پوتن  پريگوژنکو ایک مثال بنا کر پیش کریں گے۔"

امریکی ایجنسیاں، واگنر کی بغاوت کے آثار جان چکی تھیں، میڈیا

انہو ں نے مزید کہا،"بغاوت کی کوشش کے دو ماہ بعد  پريگوژناور واگنر کی کمان کو ختم کردینے کا مظاہرہ سن 2024 کے انتخابات سے قبل پوتن کی جانب سے روس کے اشرافیہ کے لیے ایک اشارہ ہے۔"

پریگوزن پوٹن کے کلیدی اتحادی رہے تھے اور ایک مرتبہ ان کے نجی کیئر ٹیکر کے طورپر بھی خدمات انجام دی تھیںتصویر: Razgruzka_Vagnera/telegram/AP/picture alliance

 پريگوژنکون تھے؟

ویگنر فورسز یوکرین پر روسی حملے میں شامل تھیں، جس نے باخموت کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

 لیکن اس نجی فوجی گروپ اور سرکاری روسی فوج کے درمیان تنازعات اس وقت بڑھ گئے جب  پريگوژننے اپنی فوج کو یوکرین سے نکالنے اور ماسکو کی جانب مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کارروائی کے دوران واگنر نے روستوف آن ڈان نامی ایک اہم شہر کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

اس سے چند ماہ قبل ہی 62 سالہ  پريگوژننے روس کی فوجی قیادت کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ انہوں نے بالخصوص وزیر دفاع سرگئی شوئیگو اور چیف آف اسٹاف ویلیری گیراسیموف پر زبانی حملے کیے تھے۔ انہوں نے اپنی فوج کے لیے رسد کی کمی کی شکایت کی تھی اور یہ الزام بھی لگایا کہ روسی فوج نے واگنر گروپ کے فوجیوں پر فائرنگ کی تھی۔

مغرب چاہتا تھا کہ 'روسی ایک دوسرے کو مار ڈالیں'، پوٹن

بہر حال بیلا روس کے صدر الیگزنڈر لوکاشینکو کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات اور معاہدے کے بعد  پريگوژناپنی فوج کے ساتھ بیلا روس چلے گئے اور بغاوت کا خاتمہ ہوا۔ تاہم ایسی متضاد اطلاعات بھی موصول ہوتی رہیں کہ انہوں نے اس کے فوراً بعد ہی بیلا روس چھوڑ دیا تھا۔

روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ایک عوامی خطاب کے دوران  پريگوژنکے اقدامات کو "غداری" قرار دیا تھا۔ اور کہا تھا کہ  پريگوژننے اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے کئی کاروبار کیے اور ویگنر گروپ قائم کیا۔

 پريگوژناس سے قبل پوٹن کے کلیدی اتحادی رہے تھے اور ایک مرتبہ ان کے نجی کیئر ٹیکر کے طورپر بھی خدمات انجام دی تھیں۔

’روس کے کرائے کے فوجیوں کا واگنر گروپ، اٹلی کی طرف مہاجرین کے بہاؤ میں اضافے کا سبب‘

 پريگوژنبیس برس سے زیادہ عرصے اقتدار پر فائز رہنے والے روسی صدر پوٹن اور کریملن کے لیے سب سے بڑا کھلا چیلنج بن گئے تھے۔

 ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں