1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پوٹن کا دورہ انڈیا: پاکستان کی دلچسپی کے امور کیا ہوں گے؟

4 دسمبر 2025

تجزیہ کاروں کے مطابق روسی صدر کے دورہ بھارت کے دوران بھارت کی ایک کوشش یہ بھی ہو گی کہ نئی دہلی روس سے مزید ایس‑400 میزائل خریدنے اور ایس‑500 دفاعی نظام کے حوالے سے معاہدوں کو حتمی شکل دے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، روسی صدر پوٹن
بھارت روس کے ساتھ اپنی قربت کو مزید مستحکم کر رہا ہے تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بھی نمایاں بہتری آئی ہےتصویر: Vladimir Smirnov/REUTERS

روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا دورہ بھارت بظاہر دہلی اور ماسکو کے پرانے سفارتی تعلقات کا ایک معمولی سلسلہ ہے مگر ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیا اس وقت بڑی جیوپولیٹیکل تبدیلیوں سے گزر رہا ہے اور اسی وجہ سے صدر پوٹن کے اس دورے پر نہ صرف امریکہ اور مغربی دنیا بلکہ چین اور پاکستان بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

ایک طرف بھارت روس کے ساتھ اپنی اسٹریٹجک قربت کو مزید مستحکم کر رہا ہے تو دوسری طرف حالیہ عرصے میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔

 خطے کی پیچیدہ صورتحال میں صدر پوٹن کے دورہ بھارت میں پاکستان کی دلچسپی کے امور کون سے ہوں گے؟ اور کیا یہ دورہ پاکستان کو دفاعی اور سفارتی سطح پر متاثر کرے گا؟ سینیٹر مشاہد حسین سید اس حوالے سے کہتے ہیں کہ بدلتی ہوئی سیاسی فضا کو سمجھنے کے لیے تین بڑے رجحانات پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

 ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے کہا، ''خطے میں ایک ساتھ تین بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ پہلی بڑی تبدیلی یہ ہے کہ روس اور امریکہ، چین اور امریکہ اور روس اور چین نئے انداز میں ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ آج پاکستان سفارتی اعتبار سے بھارت کے مقابلے میں کہیں مضبوط پوزیشن میں ہے، خاص طور پر مئی سن 2025 کی فوجی جھڑپ کے بعد، اور پاکستان کے بیجنگ، ماسکو اور واشنگٹن، تینوں سے یکساں اچھے تعلقات ہیں۔ تیسری تبدیلی یہ کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کشیدہ ہو چکے ہیں جبکہ بھارت کے افغانستان سے روابط بہتر ہو رہے ہیں اور روس افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم بھی کر چکا ہے۔"

پوٹن کا دورہ بھارت: پاکستان کی دلچسپی کے امور کون سے ہوں گے؟

مشاہد حسین سید کے مطابق، ”پاکستان کے نقطہ نظر سے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ روس اور بھارت افغانستان کے معاملے پر کتنی گہری شراکت داری قائم کرتے ہیں کیونکہ روس اور بھارت کے تعلقات پہلے بھی مضبوط رہے ہیں اور صدر پوٹن کا  دورہ بھارت ان کی روایتی 'حسبِ معمول‘ سفارت کاری کا ہی ایک تسلسل ہے۔"

روسی صدر پوٹن چار سال بعد بھارت کا دورہ کر رہے ہیںتصویر: Irina Polina/ZUMA/picture alliance

سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ریسرچ ڈائریکٹر ڈاکٹر بلال زبیر سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی دلچسپی کا سب سے نمایاں پہلو روس اور انڈیا کے درمیان دفاعی شعبے میں تعاون کے ممکنہ نئے معاہدے ہوں گے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ”انڈیا کی سب سے بڑی دلچسپی روس سے مزید ایس‑400 میزائل خریدنے اور ایس‑500 دفاعی نظام کے حوالے سے معاہدے کرنے میں ہے۔ پاکستان اس طرح کی کسی بھی پیش رفت کو بغور دیکھ رہا ہوگا کیونکہ بھارت کی یہ خریداری خاص طور پر پاکستان کے تناظر میں اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ روس ایس یو‑57 لڑاکا طیارے فروخت کرنا چاہتا ہے، جنہیں ففتھ جنریشن وار کے طیارے کہا جا رہا ہے۔ یہ طیارے پاکستان کے چین سے حاصل کردہ جے ‑35 سٹیلتھ لڑاکا طیاروں کے جواب میں بھارت کی اسٹریٹجک حکمت عملی کا حصہ ہیں۔"

بریگیڈیئر ریٹائرڈ اور موجودہ ممبر پارلیمان محمد اسلم گھمن کے خیال میں پاکستان کے لیے ایک اہم مشاہدہ بھارت کی امریکہ اور روس کے درمیان اسٹریٹجک بیلنس قائم کرنے کی حکمت عملی ہو گی۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”ایک طرف (بھارتی وزیر اعظم نریندر) مودی کو امریکہ اور مغربی ممالک کے دباؤ کا سامنا ہے تو دوسری طرف روس کے ساتھ تیل اور اسلحے کی خریداری کے جامع معاہدے ہیں۔ انڈیا نے یوکرین جنگ کے حوالے سے (مغربی ممالک کا) پریشر برداشت کیا اور اس کے نتیجے میں اسے معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ دیکھنے کی چیز یہ ہو گی کہ مودی کس طرح اس پریشر کے ماحول میں روس سے اپنے تعلقات آگے بڑھاتے ہیں۔"

کیا روس اور انڈیا کا دفاعی تعاون پاکستان کی اسٹریٹجک حکمت عملی متاثر کرے گا؟

بھارت اور روس کے درمیان اسٹریٹجک تعاون سے پاکستان کی دفاعی حکمت عملی کس حد تک متاثر ہو سکتی ہے؟ سابق سفیر اور پاکستان کی جوہری دفاعی حکمت عملی پر ایک کتاب کے مصنف ضمیر اکرم کے مطابق اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ضمیر اکرم نے کہا، ”تاریخی طور پر پاکستان کی دفاعی ضروریات امریکہ پوری کرتا آیا، بعد میں چین نے تعاون کیا اور بیجنگ کے ساتھ یہ تعاون جاری ہے۔ اس لیے روس اور انڈیا کے درمیان جنگی طیاروں کی خریداری کے معاہدے پاکستان پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔"

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم بھی ایسی ہی رائے رکھتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا، ”سویت یونین کے دور سے انڈیا کا روس سے دفاعی تعاون چلتا آ رہا ہے۔ اس لیے نئے معاہدے معمول کی سرگرمی ہوں گے۔ ویسے بھی روس کے جدید ہتھیار مغرب کے ان ہتھیاروں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر نہیں، جو پہلے سے انڈیا کے پاس ہیں۔ یہ کسی بھی طرح چین کی اس ٹیکنالوجی کا جواب نہیں جو پاکستان استعمال کرتا ہے۔ اس لیے ہمارا دفاعی نظام متاثر نہیں ہو گا۔"

بھارت کا روس اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں توازن کا فن

02:22

This browser does not support the video element.

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں، کیا روس کی مدد سے بھارت اس موقع کا فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ایسے کسی امکان کی نفی کرتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کشیدہ ہیں، اور اسی دوران بھارت کی کابل سے قربت بڑھی ہے مگر روس کی اس معاملے میں دلچسپی نہیں ہے۔ اس لیے روس کا فوکس دفاعی معاہدوں یا تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے پر ہو گا، نہ کہ کابل کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی بھارتی حکمت عملی کا حصہ بننے پر۔"

پوٹن کے دورہ بھارت سے پاکستان کو سفارتی سطح پر فائدہ یا نقصان؟

پوٹن کے دورہ بھارت سے پاکستان اور روس کے سفارتی تعلقات پر کیا فرق پڑے گا؟ اس حوالے سے ضمیر اکرم کہتے ہیں، ”گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان اور روس کی قربت بڑھی ہے، دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ جنگی مشقیں ہوئی ہیں۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی والا انڈیا روس کے لیے ایک پرکشش منڈی ہے، وہ اپنے مفاد کے لیے جو بھی معاہدے کرے اس سے پاکستان کو فرق نہیں پڑتا، کیوںکہ روس کسی بھی طرح دفاعی تعاون میں پاکستان کی حکمت عملی کا حصہ نہیں۔"

صحافی اور تجزیہ کار سجاد اظہر کے خیال میں اگر بھارت اور روس کے درمیان نئے دفاعی معاہدے ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ پاکستان کو ہو گا، ”ایک وقت تھا پاکستان کو سفارتی تنہائی کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ اب اس طرح کی صورتحال کا سامنا انڈیا کو ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں سجاد اظہر نے مزید کہا، ''بیشتر مغربی ممالک اور امریکہ سے اس کے تعلقات خراب ہیں۔ روس اور چائنہ کے بلاک میں روایتی طور پر انڈیا فٹ نہیں بیٹھتا۔ پاکستان ایک بیک وقت چین اور امریکہ کے ساتھ کامیاب سفارت کاری کر رہا ہے۔ اس تناظر میں اگر انڈیا مغربی ممالک اور امریکہ کو مزید ناراض کرتا ہے تو پاکستان کو اس کا فائدہ ہو گا۔ ممکنہ طور پر جواب میں امریکہ پاکستان سے اپنا دفاعی اور تجارتی تعاون بڑھائے گا۔"

حاليہ دنوں بھارت اور امريکہ کے تعلقات گو کہ اعلیٰ ترین سطح پر نہيں ليکن ايسا بھی نہيں وہ خراب ہيں۔ نئی دہلی اور واشنگٹن ایک تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دييے کی کوششوں ميں ہيں، جس کا مقصد محصولات میں کمی اور امريکہ کے بھارت کے ساتھ تجارتی خسارے ميں کمی لانا ہے۔

بھارت ایک اہم معاہدے کو بھی آگے بڑھا رہا ہے، جس کی مالیت ایک ارب ڈالر (860 ملین یورو) ہے۔ یہ معاہدہ امریکی کمپنی جی ای ایرو اسپیس اور بھارت کی سرکاری طیارہ ساز کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (HAL) کے درمیان طے پا سکتا ہے، جس کے تحت بھارت اپنے مقامی تیار کردہ تیجس لڑاکا طیاروں کے لیے امریکی ساختہ جیٹ انجن حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں