1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس یوکرین جنگ: مشرق وسطیٰ کے جنگجوؤں کی شمولیت کے امکانات

11 مارچ 2022

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین کیساتھ روس کی جنگ میں شریک ہونے کے لیے مشرق وسطیٰ سے ہزاروں جنگجوؤں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔

Russland Moskau | Wladimir Putin während Videokonferenz
تصویر: Mikhail Klimentyev/AP/picture alliance

 

 جمعہ گیارہ مارچ کو خبر رساں ایجنسی روئٹرز کی لندن سے موصولہ رپورٹ کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے مشرق وسطیٰ سے ہزاروں کی تعداد میں جنگجوؤں کو یوکرین کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کی خاطر اپنے ہاں لانے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔ 

روسی سلامتی کونسل کے اجلاس میں روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں 16 ہزار رضاکار مشرقی یوکرین سے علیحدہ ہونے والے علاقے ڈونباس میں روسی حمایت یافتہ افواج کیساتھ لڑنے کے لیے تیار تھے۔ روسی صدر پوٹن نے اس بارے میں کہا،'' اگر آپ انہیں دیکھیں جو اپنی مرضی سے بغیر کسی پیسے کے، ڈونباس کے شہریوں کی مدد کے لیے تیار ہیں، تو ہمیں بھی انہیں وہ کچھ دینا چاہیے جو وہ چاہتے ہیں اور متنازعہ علاقے تک پہنچنے کے لیے ان کی مدد کرنا ہوگی۔‘‘

روس اور امریکا میں اب جھگڑا کیا ہے؟

روسی وزیر دفاع  سرگئی شوئیگو نے بھی یہ تجویز پیش کی ہے کہ مغربی ساخت کے نیزے اور اسٹنگر میزائلز جو روسی فوج نے یوکرین میں اپنے قبضے میں لیے تھے انہیں ڈونباس فورسز کے حوالے کر دیا جائے۔ اس بارے میں روسی صدر نے کہا،'' میں ہتھیاروں کی  باقاعدہ تقسیم، خاص طور پر مغربی ساختہ جو روسی فوج کے ہاتھ لگ چُکے ہیں، انہیں لوگانسک اور ڈونیٹسک کی عسکری یونٹس یا دستوں کے حوالے کرنے کے امکانات کی حمایت کرتا ہوں۔‘‘ پوٹن نے اپنے اس ارادے پر زور دیتے ہوئے وزیر دفاع  سرگئی شوئیگو سے کہا،'' برائے کرم یہ کر جائیں۔‘‘    

سرد جنگ جیسی کشیدگی پھر لوٹ سکتی ہے، چین کی تنبیہ

 

مشرقی یوکرین میں روسی آپریشنتصویر: VIA REUTERS

روس یوکرین تنازعے کا پس منظر

روس اور یوکرائن کا تنازعہ نہایت سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ روس کے یہ اقدامات کس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں؟ اس بارے میں پاکستان کے بین الاقوامی امور کے ماہراور جامعہ کراچی کے چیئرمین شعبہ انٹر نیشنل ریلیشنز ڈاکٹر نعیم احمد نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' دنیا ایک بار پھر چین اور امریکہ کی سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، روس اس میں ایک بار پھر اپنا نمایاں کردار دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ماضی قریب میں دیکھا جائے تو جس طرح شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن بنی تھی اُس کا ایک اہم مقصد بین الاقوامی سیاست میں امریکا کی بالادستی یا غلبے کو کاؤنٹر کرنا تھا۔ اس وقت روس نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ایک طرح سے امریکہ کو چیلنج بھی کیا ہے۔ روس اور چین کا بلاک اب امریکی غلبے کو چیلنج کرنے کی صلاحیت کا اظہار بھی ہے، سفارتی اور عسکری دونوں اعتبار سے۔‘‘

'یہ وقت ترکی اور ایران کے ساتھ رقابتوں کو سنبھالنے کا ہے'

 سرد جنگ مگر محرکات مختلف

ڈاکٹر نعیم احمد کا تاہم کہنا ہے کہ اس بار کی سرد جنگ ماضی کی طرح نظریاتی نہیں ہوگی۔ اس بار علاقائی مفادات کی جنگ ہوگی۔ روس اور چین اپنے اپنے تسلط شدہ علاقوں میں امریکا، مغرب یا نیٹو کی کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔امریکا اور چین ’نئی سرد جنگ کے دہانے‘ پر ہیں، چینی وزیر خارجہ

 

2008 ء میں جارجیا میں روسی ٹینک دوڑتے ہوئےتصویر: Maxim Shipenkov/EPA/picture-alliance

اس سوال کے جواب میں کہ روس کو اس وقت یوکرین کے حوالے سے کیا خدشات ہیں تو ڈاکٹر نعیم احمد کا کہنا تھا،'' روس کو اس وقت وہی خدشات لاحق ہیں جو 2008 ء میں تھے جس کے سبب اُس نے جارجیا پر حملہ کیا تھا۔ کم و بیش وہی خدشات ماسکو کو یوکرین کے حوالے سے اس وقت بھی لاحق ہیں۔ اب روس اور یوکرین کی جنگ عالمی جنگ کی شکل تو اختیار نہیں کرے گی تاہم یہ ایک متوسط سطح کی جنگ ضرور ہے جس میں روس اپنی طاقت کا استعمال کر رہا ہے اور امریکا اور مغرب کو چیلنج کر رہا ہے کہ وہ روس کے حلقہ اثر میں کسی قسم کی مداخلت نہ کریں۔‘‘ ڈاکٹر نعیم کہتے ہیں کہ عالمی سیاست اس وقت '' مضبوط بلاک پولیٹکس یا سیاست‘‘ کی طرف جا رہی ہے۔

 روس کا موقف

روس کا کہنا ہے کہ یوکرین میں اس کا 'خصوصی فوجی آپریشن‘  یوکرین کی طرف سے روسی زبان بولنے والوں کی نسل کشی کے خلاف ایک مضبوط ردعمل ہے۔ روس کا دعویٰ ہے کہ یوکرین کے مشرق میں روسی بولنے والوں کو نسل کشی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تاہم کییف اور مغرب کی طرف سے اس روسی بیان کو بے بنیاد جنگی پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے رد کیا جا رہا ہے۔

روسی وزیر دفاع شوئیگو نے کہا ہے کہ روسی فوج اپنی مغربی سرحد کو مضبوط کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے، خاص طور سے روس کی مغربی سرحد پر مغربی فوجی یونٹس کی تعیناتی میں اضافے کے بعد سے۔

 

ک م/  ع ح ) روئٹرز(

      

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں