سن دو ہزار چودہ میں جب روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرائن کے علاقے کریمیا کو روس کا حصہ بنانے کا متنازعہ فیصلہ کیا تھا تو ان کی عوامی مقبولیت میں ایک دم اضافہ ہو گیا تھا۔ تاہم اب پانچ برس بعد صورتحال کچھ مختلف ہو چکی ہے۔
اشتہار
پانچ برس قبل روس نواز مسلح جنگجوؤں نے یوکرائن کے جزیرہ نما علاقے کریمیا کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ کئی ماہ بعد سولہ مارچ سن دو ہزار چودہ کو روس نے اس علاقے میں ایک متنازعہ ریفرنڈم کا انعقاد کرایا، جس میں مقامی لوگوں سے پوچھا گیا کہ آیا وہ روس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں؟ اس ریفرنڈم میں ستانوے فیصد ووٹرز نے روس کا حصہ بننے کے حق میں ووٹ دیا۔
دوسری طرف زیادہ تر ممالک نے اس متنازعہ ریفرنڈم کو تسلیم نہیں کیا۔ اس انتخابی عمل کے دو دن بعد ہی کریمیا کے روس کے ساتھ باقاعدہ الحاق کے لیے ایک معاہدے کو حتمی شکل دے دی گئی۔ ماسکو نے اس عمل کو کریمیا کا روس کے ساتھ دوبارہ الحاق قرار دیا تاہم یوکراین اور مغربی ممالک نے کہا کہ ماسکو حکومت کا یہ عمل بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ مذمت اور عالمی تنقید کے باوجود روسی صدر کی قیادت میں ماسکو حکومت نے اس یوکرائنی علاقے کو روس کا ایک علاقہ بنا ڈالا۔
پوٹن کے اس متنازعہ فیصلے کے باعث روس میں ان کی مقبولیت اچانک بڑھ گئی۔ سن دو ہزار چودہ میں کرائے گئے عوامی جائزوں کے مطابق تب پوٹن کی عوامی مقبولیت ساٹھ فیصد سے بڑھ کر اسّی فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ اسے ’پوٹن کا کریمیا ایفکٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ صورتحال زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکی۔
بالخصوص سن دو ہزار اٹھارہ میں روسی صدر نے کہا کہ پینشن کے نظام میں اصلاحات کی جائیں گی اور ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا دی جائے گی۔ اس اعلان سے پوٹن کی عوامی مقبولیت کم ہو گئی تھی۔ آج کل روس میں پوٹن کی عوامی مقبولیت 64 فیصد ہے اور ان افراد کا کہنا ہے کہ وہ پوٹن سے مطمئن ہیں۔
کریمیا کو روس کا حصہ بنانے کی وجہ سے امریکا اور یورپی ممالک نے روس پر پابندیاں بھی عائد کیں، جس کی وجہ سے روسی اقتصادیات پر منفی اثرات پڑے۔ اس وقت روس میں ایسی کوئی بحث نہیں پائی جاتی کہ کریمیا حقیقی طور پر روس کا علاقہ تھا یا یوکرائن کا۔ تاہم اب یہ ایک بین الاقوامی تنازعہ ضرور بن چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق مستقبل میں کریمیا کا معاملہ روسی حکمرانوں اور عوام کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن سکتا ہے۔
ع ب / ع ا / آر جی
کریمیا کا بحران: روسی اقدام اور اُس کے نتائج
روس اور کریمیا کی ماسکو نواز حکومت نے بڑی ہی تیز رفتاری کے ساتھ اس جزیرہ نما کو وفاق روس کا حصہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس روسی اقدام کو بھی برسلز میں منعقدہ یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس میں زیر بحث لایا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس اور یوکرائن
یورپی یونین کی برسلز میں منعقدہ سربراہ کانفرنس میں روس کے خلاف مزید پابندیوں کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جمعہ اکیس مارچ کو ختم ہونے والی اس دو روزہ سربراہ کانفرنس میں یورپی یونین نے کریمیا میں روسی اقدام کے خلاف ایک تعزیری اقدام کے طور پر روس کے ساتھ اپنی اگلی سربراہ کانفرنس منسوخ کرنے کا بھی اعلان کیا۔
تصویر: REUTERS
عزائم پر برق رفتاری سے عملدرآمد
روس نے بحیرہء اسود کے جزیرہ نما کریمیا پر اپنی عسکری قوت بڑھانا شروع کر دی ہے۔ بدھ اُنیس مارچ کو روس نواز قوتوں نے یوکرائن کے کئی ایک فوجی اڈوں پر کنٹرول حاصل کر لیا، جیسے کہ مثلاً بندرگاہی شہر سیواستوپول میں، جہاں یہ تصویر اتاری گئی۔
تصویر: Reuters
آئین سے ہم آہنگ اقدام
ایک جانب روسی فوجی پیریوالنوئے میں واقع پوکرائن کے فوجی اڈے میں داخل ہو رہے تھے، دوسری طرف روسی آئینی عدالت کریمیا کو وفاق روس کا حصہ بنانے کے معاہدے کو آئین سے ہم آہنگ قرار دے رہی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا جا رہا تاہم روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اس معاہدے پر اٹھارہ مارچ منگل کو ہی اپنے دستخط ثبت کر دیے تھے۔ روسی پارلیمان کے دونوں ایوان بھی اس کی توثیق کر چکے ہیں۔
تصویر: Dan Kitwood/Getty Images
خاموش پسپائی
خبر رساں اداروں کے مطابق یوکرائن کے ایک میجر نے یہ بتایا کہ ’روسی فوجی یہاں پہنچ گئے اور اُنہوں نے ہم سے یہ اڈہ چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا‘۔ اس تصویر میں ایک فوجی افسر نوووسیرنے کے اڈے سے جاتا نظر آ رہا ہے۔ اگرچہ یوکرائن نے کریمیا سے اپنے فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا ہے لیکن کہا ہے کہ فوج کو چوکنا رہنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
تصویر: FILIPPO MONTEFORTE/AFP/Getty Images
شاندار ہال میں متاثر کن آمد
اٹھارہ مارچ کو ولادیمیر پوٹن نے کریملن کے شاندار گیورگ ہال میں ایوانِ زیریں دُوما کے نمائندوں اور روسی وفاق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کریمیا کو روس کا ’اٹوٹ انگ‘ قرار دیا اور مغربی دنیا پر الزام عائد کیا کہ اُس نے یوکرائن میں ’ایک سرخ لائن‘ عبور کی ہے۔
تصویر: Reuters
پہلے بیانات اور فوراً بعد عملی اقدامات
پوٹن کے بیانات کے فوراً بعد عملی اقدامات شروع کر دیے گئے۔ کریملن میں ایک شاندار تقریب میں روس میں کریمیا کی شمولیت کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس تصویر میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ساتھ کریمیا کی ماسکو نواز حکومت کے سربراہ سیرگئی آکسیونوف (انتہائی بائیں جانب)، کریمیا کی پارلیمان کے ترجمان ولادیمیر کونسٹانٹینوف (بائیں سے دوسرے) اور سیواستوپول کے میئر الیکسی شالی (دائیں) نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
امیدیں اور توقعات
کریمیا میں ایک ساتھ مایوسی بھی ہے اور جشن بھی۔ جہاں یوکرائن کے فوجی اور اُن کے اہلِ خانہ اس جزیرہ نما سے رخصت ہو رہے ہیں، وہاں کریمیا کے دیگر باسی روسی کے ساتھ الحاق کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ سیواستوپول میں جمع ایک روس نواز شہری نے کہا، ’مجھے یقین ہے کہ ہماری زندگی بہتر ہو جائے گی‘۔
تصویر: Reuters
الحاق کی حمایت میں تالیاں
کریمیا میں سینکڑوں افراد نے کریمیا کو روس کا حصہ بنانے سے متعلق پوٹن کی تقریر کو سنا اور خوشی اور جوش و جذبے کے ساتھ تقریر کے بعد ہونے والے آتش بازی کے مظاہرے کو دیکھا۔ اس تصویر میں لوگ کریمیا کے شہر زیمفروپول میں بڑی اسکرین پر یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اتوار سولہ مارچ کو ہونے والے ریفرنڈم میں کریمیا کے 97 فیصد شہریوں نے روس کے ساتھ الحق کے حق میں رائے دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
قوم کی رَگ پر ہاتھ
پوٹن نے کریمیا میں پیش قدمی کرتے ہوئے غالباً روسی عوام کے ایک حصے کے دلی خواہش پوری کر دی ہے۔ قوم کے نام پوٹن کے خطاب کے بعد متعدد شہروں میں اُن کے لاکھوں حامی جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ماسکو میں اتری اس تصویر میں بھی پوٹن کے حامی جشن مناتے نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: DMITRY SEREBRYAKOV/AFP/Getty Images
’میدان‘ کے سرگرم کارکن
یوکرائن کے دارالحکومت کییف کا مرکزی علاقہ ’میدان‘ گزشتہ کئی مہینوں سے صدر وکٹر یانوکووچ کی حکومت کے خلاف جدوجہد کا مرکز بنا رہا۔ اُس روز بھی، جس روز کریمیا کی یوکرائن سے علیحدگی یقینی نظر آ رہی تھی، اس مقام پر لوگ جمع تھے۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
یورپی یونین میں شمولیت کی جانب ایک قدم
’میدان‘ میں چند مہینے پہلے کا ایک منظر، جس میں ’یورپی مستقبل کے لیے‘ نامی تحریک کے کارکن یورپی یونین میں یوکرائن کی شمولیت کے موضوع پر ایک ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اب یہ منزل قریب آ گئی ہے۔ برسلز منعقدہ یورپی یونین سربراہ کانفرنس کے موقع پر یونین اور یوکرائن کے درمیان قریبی تعاون کے علامتی اعتبار سے ایک نہایت اہم سمجھوتے پر دستخط ہوئے ہیں۔