روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے شامی صدر بشارالاسد سے بحیرہ اسود کے کنارے واقع روسی سیاحتی مقام سوچی میں ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کا اعلان ماسکو یا دمشق کی جانب سے قبل از وقت نہیں کیا گیا تھا۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے کریملن کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس موقع پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے شامی فورسز کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے بشارالاسد کو بتایا کہ شام میں اب سیاسی عمل کو آگے بڑھنے کے لیے حالات سازگار ہیں۔ بیان کے مطابق پوٹن کا یہ بھی کہنا تھا کہ شام میں موجود غیر ملکی افواج شاید جلد ہی وہاں سے نکلنا شروع ہو جائیں۔
اس موقع پر بشارالاسد کا کہنا تھا کہ بحران کے شکار شامی علاقوں میں حکومتی ملٹری کامیابیوں کا مطلب ہے کہ ان کی حکومت ’’صورتحال کو معمول پر لانے میں کامیاب ہو رہی ہے‘‘ اور اس سے بہت سے شامی شہریوں کی ملک واپسی کی راہ ہموار ہو گی۔
کریملن سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق دونوں صدور نے اُس آئینی کمیٹی کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا جس کا مقصد شام کے آئین میں ترامیم پر غور خوض ہے۔ یہ کمیٹی جنوری میں سوچی میں ہونے والی سیریئن نیشنل ڈائیلاگ کانفرنس کے بعد قائم کی گئی تھی۔
شامی اپوزیشن کے اہم ارکان نے اُن مذاکرات کا بائیکاٹ کیا تھا تاہم بشارالاسد نے کہا تھا کہ شام اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر آئین میں اصلاحات کے منصوبے پر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
روس بشارالاسد کے اہم ترین حامیوں میں سے ایک ہے۔ روسی فوجوں کی شام میں آمد کے بعد شامی صدر حالیہ مہینوں کے دوران باغیوں کے خلاف ملک کے بڑے حصوں میں کامیابیاں حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔ ان میں دارلحکومت دمشق کے نواحی علاقے بھی شامل ہیں۔
روس ان تین ممالک میں سے بھی ایک ہے جو شامی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ہونے والے اُن امن مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں جنہیں آستانہ پراسیس کا نام دیا جاتا ہے۔ دیگر دو ممالک ایران اور ترکی ہیں۔ یہ مذاکرات قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں مسلسل ہوتے رہے ہیں اور ان کا مقصد اقوام متحدہ کی زیر نگرانی چلنے والے امن مذاکرات میں معاونت کرنا ہے۔
شامی صدر بشار الاسد اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان یہ ملاقات جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی پوٹن سے آج جمعہ 18 مئی کو ہونے والی ملاقات سے ایک روز قبل ہوئی۔ میرکل اور پوٹن کی ملاقات میں دیگر موضوعات کے علاوہ شام کا معاملہ بھی بات چیت کا حصہ ہو گا۔
شامی تنازعہ میں برسر پیکار قوتیں
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سن 2011ء کے عرب اسپرنگ کے بعد شام میں خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے دنیا کے مختلف حریف گروہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت شام میں کون سی قوتیں طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں؟
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شام کے مسلح گروہ
شام کے بڑے علاقے پر مختلف باغی گروپوں اور صدر بشار الاسد کے درمیان کنٹرول کے حصول کی جنگ کے باعث ملک زبردست خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس تنازعہ میں اب تک کئی غیر ملکی طاقتیں شامل ہوچکی ہیں اور کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ڈکٹیٹر
شامی افواج جسے شامی عرب افواج ، ایس ایس اے، کے نام سے جانا جاتا ہے، ملکی صدر بشار الاسد کی وفا دار ہے اور پورے ملک پر بشار الاسد کی حکومت ایک بار پھر بحال کرنے کے لیے جنگ لڑ رہی ہے۔ اس جنگ میں ان کے ساتھ نیشنل ڈیفینس فورس جیسی ملیشیا ، روس اور ایران کے عسکری ماہرین کی مشاورت شامل ہے۔
ترکی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ ہے اور اس وقت شامی جنگ میں صدر بشار الاسد کے حریف باغیوں کے گروپ کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی جنوبی ادلب اور افرین صوبوں میں باغیوں کے ہمراہ کارروائیوں میں ساتھ دے چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
مشرقی محافظ
روس بشار الاسد کا طاقتور دوست ثابت ہو رہا ہے۔ ستمبر 2015 میں روسی فضائیہ اور زمینی افواج نے باقاعدہ طور پر شامی فوج کے شانہ بشانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔ روس کی اس خانہ جنگی میں شمالیت اب تک بشار الاسد کے حق میں ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
مغربی اتحادی
امریکا نے 50 ممالک کے اتحادیوں کے ساتھ شام میں سن 2014ء سے اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت امریکا کے ایک ہزار سے زائد خصوصی دستے سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کی حمایت کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A.Brandon
مزاحمت کار
شامی کردوں اور اسلامک اسٹیٹ کے درمیان اختلافات جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ اتحاد اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کا ساتھ دے رہا ہے جو کرد اور عرب ملیشیا کا بھی اتحادی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Sik
نئے جہادی
اسلامک اسٹیٹ نے خطے میں جاری افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر سن 2014ء میں قبضہ جما لیا تھا اور وہاں خلافت قائم کرنا چاہی۔ تاہم اب روس اور امریکی فوجی مداخلت کے بعد ان کو دونوں ممالک میں شکست فاش ہوئی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
پرانے جہادی
اسلامک اسٹیٹ وہ واحدگروپ نہیں جو شام میں تباہی کا ذمہ دار ہے۔ اس تنازعہ میں الاسد حکومت اور باغیوں کے کئی گروہ شامل ہیں۔ ان میں ایک بنیادی تنظیم حیات التحریر الاشام بھی ہے جس کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں اور جس نے صوبے ادلب کے بشتر حصے کا کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Nusra Front on Twitter