روسی صدر پوٹن گزشتہ دو دہائیوں سے ملکی اقتدار پر براجمان ہیں۔ بیس برس قبل انہوں نے عوام سے بہت سے وعدے کیے تھے۔ ان دو دہائیوں میں وہ کون کون سے وعدے ایفا کرنے میں کامیاب ہوئے؟
اشتہار
ماضی میں ایک جاسوس کے بہ طور کام کرنے والے ولادیمیر پوٹن نے دو دہائیاں قبل روسی صدر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ وہ روس کے طاقت ور ترین صدور میں شمار ہوتے ہیں۔ انیس سو ننانوے کی نئے سال سے قبل کی شام کو اس دور کے روسی صدر بورس یلسن مستعفی ہوئے تھے اور انہوں نے روسی کی داخلی سلامتی کی ایجنسی ایف ایس بی کے سابقہ اہلکار پوٹن کو اپنا جانشین بنایا تھا۔ مارچ دو ہزار میں انتخابات تک وہ یلسن کی جگہ صدر کی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے تھے۔ یلسن کے استعفے پر نئے سال کے موقع پر اپنے خطاب میں پوٹن نے کہا تھا، ''نئے سال کے موقع پر خواب تعبیر ہونے جا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے روسی قوم سے کہا تھا کہ وہ ایک نئی صدی میں داخلے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ پوٹن اگلے بیس برسوں میں اس حد تک اثر و رسوخ کے حامل ہو جائیں گے۔ روس میں ان کی مقبولیت مسلسل بڑھتی چلی گئی، جب کہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ پوٹن کے اہداف ہیں کیا اور آیا انہوں نے ان بیس برسوں میں اپنے وعدے پورے کر کے دکھائے بھی ہیں یا نہیں۔
صدر کے منصب پر براجمان ہونے سے قبل ایک مضمون میں پوٹن نے لکھا تھا، ''یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ روس اہم عالمی طاقت نہیں رہا۔‘‘انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ روس کو ایک بار پھر عالمی اسٹیج پر واپس لایا جائے گا اور یہ وعدہ پوٹن نے یقیناﹰ پورا کر دیا۔ امریکا اور مغربی دنیا کی سخت پابندیوں اور جی ایٹ سے نکال دیے جانے کے باوجود، چاہے وہ شام کا تنازعہ ہو یا یوکرائن اور ایران کے معاملات، روس ایک 'بادشاہ گر‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
صدر پوٹن نے سن 2000 کے انتخابات سے قبل اپنے ووٹروں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ روس کو ایک مضبوط ریاست بنائیں گے اور اس کے عسکری اور صنعتی شعبوں کو نئے خطوط پر استوار کریں گے۔ اس وقت روسی ریاست اپنی مجموعی قومی پیداوار سے زیادہ مضبوط ہے اور اس کی اصل قوت جانچنا مشکل ہے، تاہم مختلف سروے بتاتے ہیں کہ آج کا روس سن 2000 کے مقابلے میں کہیں مضبوط ہے۔ اس میں روسی عسکری قوت میں جدت بھی شامل ہے۔
عوامیت پسند یورپی رہنما کیا روس کے ساتھ ہیں؟
سن 2014 میں یوکرائنی بحران کے باعث یورپی یونین امریکا کی طرف راغب ہوئی اور روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یوں کئی اہم یورپی رہنما ماسکو حکومت سے دور ہو گئے تاہم عوامیت پسند یورپی سیاست دان روس کی طرف مائل ہوتے نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Elkin
سٹراخا روس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Bader
’روس اور سفید فام دنیا‘، ژاں ماری لے پین
فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاسدتان ژاں ماری لے پین کو 2015ء میں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ فرانس کو روس کے ساتھ مل کر ’سفید فام دنیا‘ کو بچانا چاہیے۔ قبل ازیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نازی جرمن دور کے گیس چیمبرز ’تاریخ کی ایک تفصیل‘ ہیں۔ ان اور ایسے ہی دیگر بیانات کی وجہ سے ان کی بیٹی مارین لے پین نے انہیں اپنی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ سے بے دخل کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Fuentes
’روس کے اثر میں نہیں‘، مارین لے پین کا اصرار
فرانسیسی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ’بالکل بیوقوفانہ‘ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کریمیا ہمیشہ سے ہی روس کا حصہ تھا‘۔ نیشنل فرنٹ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے روسی بینکوں سے قرضے لیے تاہم لے پین کے بقول روس کا ان پر یا ان کی پارٹی پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ سن 2017ء میں انہوں نے کریملن میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev
متبادل برائے جرمنی کے روس کے ساتھ مبینہ تعلقات
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی روسی پس منظر کے حامل ووٹرز میں قدرے مقبول ہے۔ اس پارٹی کی سابق رہنما فراؤکے پیٹری نے سن 2017ء میں روسی صدر کی سیاسی پارٹی کے قانون سازوں سے ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ اے ایف ڈی روس پرعائد پابندیوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم اس پارٹی کے رہنما ایلیس وائیڈل اور الیگزینڈر گاؤلینڈ کے بقول اے ایف ڈی پوٹن یا ان کی ’مطلق العنان حکومت‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
وکٹور اوربان کے پوٹن کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کئی مرتبہ بوڈا پیسٹ میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کر چکے ہیں۔ دونوں رہنما اپنے طرز حکمرانی کے طریقہ کار میں کئی مماثلتیں رکھتے ہیں۔ اوربان کا کہنا کہ ہے یورپی سیاستدان خود کو اچھا دکھانے کی کی خاطر پوٹن کو ’برا‘ ثابت کرتے ہیں۔ تاہم سیرگئی اسکریپل پر کیمیائی حملے کے بعد روسی اور یورپی سفارتی بحران کے نتیجے میں ہنگری نے روسی سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Laszlo Balogh
گیئرت ولڈرز کا دورہ روس اور تنقید
اسلام مخالف ڈچ سیاست دان گیئرت ولڈرز نے سن 2014ء میں پرواز MH-17 کے مار گرائے جانے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018ء میں ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی۔ تاہم روس کے ایک حالیہ دورے کے بعد ان کے موقف میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ نیٹو اور امریکا کے حامی ہیں لیکن مہاجرت کے بحران اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف روس ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Dejong
اٹلی کے نئے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی
اٹلی میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت میں عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ اور فائیو اسٹار موومنٹ شامل ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں روس پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کو ’جارحانہ‘ اقدامات نہیں کرنا چاہییں۔ لیگ کے اعلیٰ رہنما ماتیو سالوینی ملک کے نئے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
7 تصاویر1 | 7
سن 1998 میں روس کے دیوالیہ ہو جانے پر بہت سے روسی شہریوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا تھا۔ پوٹن نے اقتدار میں آنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ عوام کے معیارِ زندگی میں اضافہ کریں گے۔ اس وقت روس نے پرتگال کو بہ طور مثال سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا کہ پندرہ برس میں روس کی فی کس جی ڈی پی پرتگالی عوام کی اوسط فی کس جی ڈی پی تک پہنچا دی جائے گی۔ روس میں یہ بیان 'کیچ اپ وِد پرتگال‘ کے محاورے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا تھا۔ اس معاملے پر بھی کئی اعتبار سے بہتری دکھائی دی، جب کہ سن 2013ء میں فی کس جی ڈی پی پرتگال کے قریب تک پہنچ گئی۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ کریمیا پر قبضے اور مغربی پابندیوں کے بعد روسی اقتصادیات کو نقصان پہنچا اور یہ سفر متاثر ہوا ہے۔