پوٹن کا دورہ: بھارت یورپی سفارتکاروں کے مضمون پر ناراض
3 دسمبر 2025
روسی صدر ولادیمیر پوٹن دو روزہ سرکاری دورے پر جمعرات کو بھارت آ رہے ہیں۔ لیکن ان کے دہلی پہنچنے سے قبل ہی ایک بھارتی روزنامے 'ٹائمز آف انڈیا‘ میں شائع ہونے والے جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے سفارت کاروں کے مشترکہ مضمون نے ايک سفارتی تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے اس اقدام کو ’ناقابل قبول اور غیر معمولی‘ قرار دیا ہے۔
برطانیہ کی ہائی کمشنر لنڈی کیمرون، فرانس کے سفیر تھیری میتھو اور جرمنی کے سفیر فِلپ ایکر مین کے مشترکہ مضمون کے حوالے سے بھارتی وزارتِ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا، ’’یہ بہت غیر معمولی ہے۔ کسی تیسرے ملک کے تعلقات پر عوامی طور پر مشورے دینا قابلِ قبول سفارتی رویہ نہیں۔ ہم نے اس کا نوٹس لے لیا ہے۔‘‘
یکم دسمبر کو شائع ہونے والے مضمون کا عنوان ہے: ’’دنیا چاہتی ہے کہ یوکرین کی جنگ ختم ہو، مگر روس امن کے حوالے سے سنجیدہ نہیں دکھائی دیتا‘‘۔ اس میں یوکرین کی جنگ کے لیے روس کو ذمہ دار ٹھہرایا اور صدر پوٹن پر’’انسانی جان کی مکمل بے قدری‘‘ کا الزام لگایا گیا ہے۔
تینوں سفارتکاروں نے روس پر ''سائبر حملوں اور گمراہ کن اطلاعات‘‘ کے ذریعے غیر دوستانہ سرگرميوں کا الزام لگایا، جو بقول ان کے اس بات کی علامت ہے کہ ''روس کی توسیع پسندانہ اور عالمی عدم استحکام کی خواہش یوکرین سے کہیں آگے تک جاتی ہے۔‘‘
’سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی‘
اس مضمون پر بھارت میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
روس میں بھارت کے سابق سفیر اور سابق خارجہ سیکرٹری کنول سبل نے اس مضمون پر ردعمل دیتے ہوئے اسے 'کھلا پروپیگنڈا‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ سفارتی اصولوں کے خلاف ہے۔
کنول سبل نے ایکس پر لکھا،''پوٹن کے بھارتی دورے سے پہلے روس کے خلاف یہ جارحانہ مضمون شائع کرکے سفارتی ضابطوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ بھارت کی توہین بھی ہے۔ یہ ایک انتہائی دوستانہ ملک کے ساتھ بھارت کے قریبی تعلقات پر سوال اٹھاتا ہے۔‘‘
سبل نے مزید کہا، ''یہ ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت ہے کیونکہ اس کا مقصد بھارت میں یورپ نواز حلقوں میں روس مخالف جذبات بھڑکانا اور روس کے ساتھ ہمارے تعلقات کی اخلاقی بنیاد کو کمزور کرنا ہے۔ تینوں ممالک کے نمائندے اپنی رائے بھارتی وزارتِ خارجہ کو سرکاری احتجاج کے ذریعے دے سکتے ہیں لیکن عوامی بیان بازی مناسب نہیں۔‘‘
میڈیا سے بھی ناراضگی
سابق خارجہ سیکرٹری سبل نے مضمون شائع کرنے والے اخبار پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا، ''ٹائمز آف انڈیا کا اس مضمون کو شائع کرنا غلط ہے۔ یہ دانستہ طور پر ہماری سفارت کاری اور قومی مفاد کے خلاف کام ہے۔‘‘
پوٹن کے بھارتی دورے کے حوالے سے نیوز ایجنسی اے این آئی نے بھارت میں جرمنی کے سفیر سے بات کی، جس پر بھی کنول سیبل نے ناراضگی ظاہر کی۔
انہوں نے لکھا، ''یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ پوٹن کے دورے سے قبل اے این آئی نے جرمن سفیر کو روس مخالف بیانات دینے کا موقع فراہم کرنے کی خصوصی کوشش کیوں کی۔ ہمارا میڈیا کسی 'بنانا ری پبلک‘ جیسی ذہنیت رکھتا ہے۔‘‘
کنول سبل نے مزید کہا، ''جرمن سفیر کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے رہنما پوٹن سے کیا کہیں۔ ہم یوکرین جنگ کے خلاف ہیں لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یورپ، امن صرف عسکری دباؤ کے ذریعے چاہتا ہے۔ سفیر سے اس کے بجائے یہ پوچھا جانا چاہیے تھا کہ نازی جرمنی کے روس پر مظالم کے باوجود جرمنی یوکرین کو اسلحہ اور مالی مدد کیوں دے رہا ہے اور روس سے دوبارہ محاذ آرائی کے راستے پر کیوں ہے؟‘‘
کیا واقعی یہ مضمون سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے؟
بعض ماہرین نے گوکہ اس مضمون کو سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی تو نہیں قرار دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ اچھے سفارتی رویے میں نہیں آتا۔
نیپال اور ویتنام میں بھارت کے سابق سفیر رنجیت رائے نے اس حوالے سے بی بی سی کے ایک سوال کے جواب میں کہا، ''مجھے نہیں لگتا کہ یہ کسی سفارتی پروٹوکول کی خلاف ورزی ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ ہمارے مہمان آ رہے ہیں اور آپ ان کے آنے سے عین پہلے ایسی باتیں کر رہے ہیں۔‘‘
رنجیت رائے نے کہا، ''یہ اچھے سفارتی رویے میں نہیں آتا۔ یورپ کو روس سے مسئلہ ہے، لیکن یورپ کا مسئلہ پوری دنیا کا مسئلہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے باوجود، میرے خیال میں ایک جمہوری ملک میں خوش آمدید کہنے اور مخالفت میں کچھ لکھنے یا کہنے کی آزادی ہونی چاہیے۔‘‘
مضمون میں کیا ہے؟
مضمون میں لکھا ہے کہ تین سال سے بھی زیادہ عرصے سے یوکرین کے لوگ اپنے ملک کا دفاع بہادری اور پختہ عزم کے ساتھ کر رہے ہیں۔ روس اپنی فوج واپس بلا کر اور اپنے غیر قانونی حملے کو ختم کر کے یا کم از کم جنگ بندی پر اتفاق کر کے فوری جنگ ختم کر سکتا ہے۔
اس میں مزید لکھا ہے کہ 2025 میں روسی حملوں میں تیزی آئی ہے اور شروعاتی امن مذاکرات کے بعد سے صدر پوٹن نے پوری جنگ کے دوران یوکرین پر 22 بڑے حملے کیے ہیں۔
پورے مضمون میں یوکرین جنگ کا ذمہ دار روس کو قرار دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا، ''دنیا اس بات پر متفق ہے کہ جنگ ختم ہونی چاہیے۔ اس معاملے میں بھارت کا موقف واضح ہے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ کسی بھی مسئلے کا حل میدانِ جنگ میں نہیں نکل سکتا۔‘‘
روسی صدر ولادیمیر پوٹن 4 اور 5 دسمبر کو بھارت کے دورے کے دوران صدر دروپدی مرمو اور وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقاتیں کریں گے۔ دورے کے دوران تجارت اور دفاع سمیت دوطرفہ اسٹریٹجک تعلقات پر بھی گفتگو ہو گی۔
دریں اثنا صدر پوٹن کے دورہ بھارت سے ٹھیک قبل، روسی پارلیمان نے بھارت کے ساتھ ایک اہم فوجی لاجسٹک معاہدے ریسیپروکل ایکسچینج آف لاجسٹک سپورٹ کو منظوری دی ہے۔
ادارت:عاصم سلیم