سن 2000 کی سال نو کی تقریبات کے موقع پر ہی ولادیمیر پوٹن نگران صدر بنائے گئے تھے۔ ایک اصلاح پسند رہنما کے طور پر روسی صدر بننے والے پوٹن اکیسویں صدی کے سب سے زیادہ طاقتور ’جنگی سردار‘ بن چکے ہیں۔
اشتہار
روسی صدر پوٹن پچیس برس قبل نو اگست سن 1999 میں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے تھے، تب سے وہ اقتدار میں ہیں اور یہ علم نہیں کہ ان کا سیاسی کیریئر کتنا طویل ہو گا؟
سابق سوویت اور روسی سیاسی رہنما بورس یلسن نے نو اگست سن 1999 کو ولادیمیر پوٹن کو روسی وفاق کا وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ تب صدر کے عہدے پر تعینات بورس یلسن کو شائد علم نہ تھا کہ پوٹن کا اقتدار اتنا طویل ہو گا۔
سوویت خفیہ ایجنسی کے سابق ملازم ولادیمیر پوٹن نو اگست انیس سو ننانوے کو وزیر اعظم بنائے گئے تھے اور اسی سال اکتیس دسمبر کو علیل بورس یلسن نے صدر کے عہدے سے اچانک مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے پوٹن کو نگران صدر بنا دیا تھا۔
پوٹن نے نیا عہدہ سنبھالتے ہوئے عہد کیا تھا کہ روس دنیا بھر میں ایک 'عظیم طاقت‘ رہے گا۔
سات اکتوبر سن 1952 میں پیدا ہونے والے پوٹن بہتر برس کے ہو چکے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ روس پر ان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ مستقبل قریب تک ان کو سیاسی سطح پر چیلنج کرنے والا دور دور تک نظر نہیں آتا۔
سوویت سیاسی و انقلابی رہنما جوزف اسٹالن کے بعد پوٹن سب سے زیادہ طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے حکمران ہیں۔ اسٹالن نے سن 1924 تا 1954ء سوویت یونین کی قیادت کی۔ ان کی موت ہی انہیں اقتدار سے الگ کر سکی۔ انتقال کے وقت اسٹالن کی عمر 74 برس تھی۔
روس کا خطرہ، فن لینڈ میں فوجی مشقیں
02:34
پوٹن کے مختلف چہرے
تاہم اس نہج تک پہنچنے کی خاطر پوٹن نے کئی چہرے بدلے۔ ان کے اقتدار کے آغاز میں مغربی ممالک کو شاید یہ شک نہیں تھا کہ وہ ایک 'جنگی سردار‘ بن کر بھی ابھر سکتے ہیں۔
اشتہار
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے سن دو ہزار ایک میں سلووینیا میں پوٹن سے ملاقات کے بعد کہا تھا، ''میں نے انہیں بہت سیدھا اور قابل اعتماد پایا ہے۔ ہماری گفتگو بہت اچھی رہی۔ وہ اپنے ملک کے بہترین مفادات چاہتے ہیں۔‘‘
ستمبر 2001 ء میں جرمن پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے پوٹن نے یورپی یونین کے ممالک کو روس کے ساتھ سکیورٹی شراکت داری کی پیشکش کی تھی۔ انہوں نے نیٹو کی سرکردہ طاقت امریکہ کے کردار پر سوال اٹھایا لیکن نیٹو اتحاد اور یورپی یونین کا رکن بننے سے انکار نہیں کر دیا تھا۔
یورپی یونین اور روس نے 'اسٹریٹیجک شراکت داری‘ قائم کرنے کے مقصد سے تعاون کے متعدد پروگراموں اور اقدامات پر اتفاق بھی کیا تھا۔ نیٹو نے ماسکو میں ایک دفتر بھی کھولا اور روس نے برسلز میں اس عسکری اتحاد میں ایک مستقل مشن قائم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
اسٹریٹیجک امور پر تبادلہ خیال کے لیے نیٹو۔ روس کی ایک کونسل قائم کی گئی، جس میں وسطی اور مشرقی یورپ کے متعدد ممالک کی طرف سے اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ بھی شامل تھا۔
یورپی یونین کے لیے تیل اور گیس کے اہم سپلائرز ہونے کے باعث روس نے بہت مالی فائدہ بھی اٹھایا۔
ولادیمیر پوٹن کے سیاسی کیرئر پر ایک نظر
روس میں اٹھارہ مارچ کو منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن میں اقتدار پر مکمل قابض ولادیمیر پوٹن کی کامیابی یقینی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے برسراقتدار پوٹن کی سیاسی زندگی کب اور کیسے شروع ہوئی؟
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Zemlianichenko
ولادت اور ابتدائی تعلیم
ولادیمیر ولادیمیروِچ پوٹن سات اکتوبر سن انیس سو باون کو سابق سوویت شہر لینن گراڈ (موجود سینٹ پیٹرز برگ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ولادیمیر پوٹن تھا، جو ایک فیکٹری میں بطور فورمین ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا بچپن ایک ایسے اپارٹمنٹ میں گزارا، جہاں تین کنبے رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے سن 1975 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
تصویر: picture-alliance/Globallookpress.com
پہلی ملازمت خفیہ ایجنسی میں
گریچویشن کے فوری بعد ہی پوٹن نے سابقہ سوویت خفیہ ایجنسی ’کمیٹی فار اسٹیٹ سکیورٹی‘ KGB میں ملازمت اختیار لی۔ بطور غیر ملکی ایجنٹ انہوں نے 1985ء تا 1990ء سابقہ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں خدمات سر انجام دیں۔ 1990ء میں پوٹن لینن گراڈ اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے نائب ڈین بن گئے۔
تصویر: AP
سیاست میں عملی قدم
جون سن 1991 میں پوٹن نے ’کے جی بی‘ سے مستعفیٰ ہوتے ہوئے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ تب انہوں نے لینن گراڈ کے میئر اناطولی سابچک کے مشیر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت پوٹن کو سٹی ہال میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران وہ بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ذمہ داریاں نبھانے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کریملن میں داخلہ
سن انیس سو ستانوے میں سابق صدر بورس یلسن نے پوٹن کو کریملن کا نائب چیف ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ ایک سال بعد ہی پوٹن فیڈرل سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) کے سربراہ بنا دیے گئے جبکہ انیس سو ننانوے میں انہیں ’رشین سکیورٹی کونسل‘ کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا، جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں روس میں اقتصادی اور سماجی مسائل شدید ہوتے جا رہے تھے۔
تصویر: Imago
بطور وزیر اعظم
نو اگست انیس سے ننانوے میں ہی بورس یلسن نے پوٹن کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ اسکنڈلز کی زد میں آئے ہوئے یلسن اسی برس اکتیس دسمبر کو صدارت کے عہدے سے الگ ہوئے گئے اور پوٹن کو عبوری صدر بنا دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صدارت کے عہدے پر براجمان
چھبیس مارچ سن دو ہزار کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پوٹن نے سات مئی کو بطور صدر حلف اٹھایا۔ تب کسی کو معلوم نہ تھا کہ پوٹن کا دور اقتدار نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ بن جائے گا۔ پوٹن کے پہلے دور صدارت میں روس نے اقتصادی مسائل پر قابو پایا، جس کی وجہ سے پوٹن کی عوامی مقولیت میں اضافہ ہوا۔
تصویر: AP
دوسری مدت صدارت
پندرہ مارچ سن دو ہزار چار کے صدارتی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر مہم چلاتے ہوئے پوٹن نے دوسری مرتبہ بھی کامیابی حاصل کر لی۔ سات مئی کے دن انہوں نے دوسری مدت صدارت کے لیے حلف اٹھایا۔ تاہم پوٹن کی طرف سے اقتدار پر قبضہ جمانے کی کوشش کے تناظر میں عوامی سطح پر ان کے خلاف ایک تحریک شروع ہونے لگی۔
تصویر: AP
اسرائیل کا دورہ
ستائیس اپریل سن دو ہزار سات میں پوٹن نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یوں انہوں نے ایسے پہلے روسی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل کیا، جس نے اسرائیل کا دورہ کیا ہوا۔ اسی برس برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملاقات کے دوران پوٹن لندن حکومت کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون میں بہتری کا اعلان کیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/pool
صدر سے وزیر اعظم
دو مارچ سن دو ہزار آٹھ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن بطور امیدوار میدان میں نہ اترے کیونکہ روسی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص مسلسل دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ تاہم اس مرتبہ پوٹن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔ تب پوٹن کے انتہائی قریبی ساتھی دمتری میدودف کو روس کا صدر منتخب کیا گیا۔
تصویر: Reuters/Y. Kochetkov
تیسری مرتبہ صدر کا عہدہ
چوبیس ستمبر سن دو ہزار گیارہ کو میدودف نے ولادیمیر پوٹن کو ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ تب پوٹن نے تجویز کیا کہ اگر پارلیمانی الیکشن میں میدودف کی سیاسی پارٹی یونائٹڈ رشیا کو کامیابی ملتی ہے تو انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے۔
تصویر: Getty Images/M.Metzel
دھاندلی کے الزامات اور مظاہرے
چار مارچ سن دو ہزار بارہ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن کو 65 فیصد ووٹ ملے اور وہ تیسری مرتبہ ملکی صدر منتخب ہو گئے۔ تاہم اس مرتبہ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ انتخابی عمل کے دوران دھاندلی کی گئی۔ سات مئی کو جب پوٹن نے صدر کا حلف اٹھایا تو روس بھر میں ان کے خلاف مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا۔
تصویر: AP
چوتھی مرتبہ صدارت کے امیدوار
چھ دسمبر سن دو ہزار سترہ کو پوٹن نے اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی صدارت کے عہدے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ روس میں اٹھارہ مارچ کو ہونے والے الیکشن میں پوٹن کی کامیابی یقینی قرار دی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پوٹن نے اپوزیشن کو خاموش کرانے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اور اقتدار کے ایوانوں پر ان کا قبضہ ہے، اس لیے وہ اس الیکشن میں بھی جیت جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
12 تصاویر1 | 12
ولادیمیر پوٹن 'بے عیب جمہوریت پسند‘
سن 2004 میں جرمن چانسلر گیرہارڈ شروئڈر نے پوٹن کو ایک 'بے عیب جمہوریت پسند‘ سیاستدان قرار دیا تھا حالانکہ اس بات کے شواہد موجود تھے کہ پوٹن مقامی حزب اختلاف اور پریس پر دباؤ ڈال رہے تھے۔ عہدہ چھوڑنے کے بعد شروئڈر کو روس کی سرکاری توانائی کمپنیوں میں منافع بخش عہدے دیے گئے۔
2006ء میں میونخ سکیورٹی کانفرنس میں پوٹن نے اپنے سفارتی نقطہ نظر کو نمایاں طور پر تبدیل کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور یورپی یونین نے روس کو ایک بڑی طاقت کے طور پر قبول نہیں کیا ہے اور نیٹو کی توسیع کی خاطر وسطی اور مشرقی یورپی ممالک کو رکنیت دی جا رہی ہے۔
پوٹن نے اس پیش رفت کو اُس یقین دہانی کی خلاف ورزی قرار دیا، جس کے تحت کہا گیا تھا کہ نیٹو اتحاد روسی سرحدوں کے نزدیک طاقت جمع نہیں کرے گا۔ درحقیقت، روس نے سن 1997 میں نیٹو۔ روس فاؤنڈیشن ایکٹ پر دستخط کے ساتھ نیٹو کی اس توسیع پر اتفاق کیا تھا۔
بہانہ بناتے ہوئے روس نے اسلحے میں کمی کے معاہدوں کو ختم کر دیا اور ساتھ ہی ماسکو حکومت نے امریکی میزائل دفاعی نظام پر سخت تنقید کی، حالانکہ اس کی منصوبہ بندی پہلے ہی کی جا چکی تھی۔
اپریل سن 2008 کے سربراہی اجلاس میں نیٹو نے یوکرین اور جارجیا سے وعدہ کیا کہ انہیں اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ اس پیش رفت پوٹن کو انتہائی ناگوار گزری۔
یورپی کمیشن 2013ء تک روس کے ساتھ 'مشترکہ اقتصادی اور ہیومنیٹیرین اسپیس‘ قائم کرنے کے اپنے طویل المدتی وژن پر تبادلہ خیال کرتا رہا، جو 'لزبن سے ولادی ووستوک‘ تک پھیلا ہوا تھا۔
پوٹن ایک ملٹی فرنٹ وار لارڈ
سن 2014 میں ایک عوامی انقلاب کے نتیجے میں یوکرین کے روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ کو عہدے سے الگ ہونا پڑا، جس کے بعد پوٹن نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔
ولادیمیر پوٹن کے مختلف چہرے
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Novosti/RIA Novosti/Kremlin
7 تصاویر1 | 7
روس نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جزیرہ نما کریمیا پر قبضہ کر لیا اور کریملن نواز علیحدگی پسندوں کی مدد سے مشرقی یوکرین کے کچھ حصوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
اس پیش رفت پر امریکہ اور یورپی یونین نے روس پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے ثالثی کی کوشش شروع کر دی۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کی کوششوں سے منسک معاہدہ طے پایا، جس سے امن قائم ہونے کی امید پیدا ہوئی۔ تاہم ایسا کبھی نہ ہو سکا۔
یورپی یونین کے عہدیداروں نے خبردار بھی کیا تھا کہ پوٹن تیزی سے مطلق العنان حکمران بن رہے ہیں۔ سن 2021 میں یورپی کمیشن نے بھی یورپی یونین اور روس کے تعلقات میں خرابی کی نشاہدہی کی لیکن یورپی بلاک نے توانائی کی درآمدات کے لیے ماسکو سے نہ بگاڑی۔
مارچ 2022ء میں روس کی طرف سے یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملے کے فورا بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ پوٹن ایک 'جنگی مجرم، قاتل ڈکٹیٹر اور ایک حقیقی ٹھگ‘ ہیں۔
اس وقت سے نیٹو نے پوٹن کے روس کو 'اتحادیوں کی سلامتی اور یورو بحر اوقیانوس کے علاقے میں امن اور استحکام کے لیے سب سے اہم اور براہ راست خطرہ‘ قرار دے دیا تھا۔
یورپی یونین نے روس پر بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کر دیں اور روسی تیل اور گیسپر انحصار ختم کرنے کی کوششوں میں تیزی لے آئی۔
تاہم یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے تقریباً تین سال بعد بھی یورپی یونین اس مقصد کو مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکی ہے۔
اب بھی یورپی یونین میں مائع قدرتی گیس کا بڑا حصہ روس سے ہی آ رہا ہے۔ تجارت سکڑ گئی ہے لیکن یورپی یونین کی بہت سی کمپنیاں اب بھی روس میں کاروبار کر رہی ہیں کیونکہ خوراک، دواسازی اور کیمیائی صنعتیں ان پابندیوں سے متاثر نہیں ہوئی ہیں۔
پوٹن کے اقتدار سنبھالنے کے 25 سال بعد نیٹو اتحاد خود کو ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ کے لیے تیار کر رہا ہے۔ اس اتحاد کا بنیادی مشن اب روس کی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرنا ہے۔
بیرنڈ ریگرٹ (ع ب/ ک م)
عوامیت پسند یورپی رہنما کیا روس کے ساتھ ہیں؟
سن 2014 میں یوکرائنی بحران کے باعث یورپی یونین امریکا کی طرف راغب ہوئی اور روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یوں کئی اہم یورپی رہنما ماسکو حکومت سے دور ہو گئے تاہم عوامیت پسند یورپی سیاست دان روس کی طرف مائل ہوتے نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Elkin
سٹراخا روس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Bader
’روس اور سفید فام دنیا‘، ژاں ماری لے پین
فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاسدتان ژاں ماری لے پین کو 2015ء میں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ فرانس کو روس کے ساتھ مل کر ’سفید فام دنیا‘ کو بچانا چاہیے۔ قبل ازیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نازی جرمن دور کے گیس چیمبرز ’تاریخ کی ایک تفصیل‘ ہیں۔ ان اور ایسے ہی دیگر بیانات کی وجہ سے ان کی بیٹی مارین لے پین نے انہیں اپنی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ سے بے دخل کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Fuentes
’روس کے اثر میں نہیں‘، مارین لے پین کا اصرار
فرانسیسی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ’بالکل بیوقوفانہ‘ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کریمیا ہمیشہ سے ہی روس کا حصہ تھا‘۔ نیشنل فرنٹ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے روسی بینکوں سے قرضے لیے تاہم لے پین کے بقول روس کا ان پر یا ان کی پارٹی پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ سن 2017ء میں انہوں نے کریملن میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev
متبادل برائے جرمنی کے روس کے ساتھ مبینہ تعلقات
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی روسی پس منظر کے حامل ووٹرز میں قدرے مقبول ہے۔ اس پارٹی کی سابق رہنما فراؤکے پیٹری نے سن 2017ء میں روسی صدر کی سیاسی پارٹی کے قانون سازوں سے ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ اے ایف ڈی روس پرعائد پابندیوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم اس پارٹی کے رہنما ایلیس وائیڈل اور الیگزینڈر گاؤلینڈ کے بقول اے ایف ڈی پوٹن یا ان کی ’مطلق العنان حکومت‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
وکٹور اوربان کے پوٹن کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کئی مرتبہ بوڈا پیسٹ میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کر چکے ہیں۔ دونوں رہنما اپنے طرز حکمرانی کے طریقہ کار میں کئی مماثلتیں رکھتے ہیں۔ اوربان کا کہنا کہ ہے یورپی سیاستدان خود کو اچھا دکھانے کی کی خاطر پوٹن کو ’برا‘ ثابت کرتے ہیں۔ تاہم سیرگئی اسکریپل پر کیمیائی حملے کے بعد روسی اور یورپی سفارتی بحران کے نتیجے میں ہنگری نے روسی سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Laszlo Balogh
گیئرت ولڈرز کا دورہ روس اور تنقید
اسلام مخالف ڈچ سیاست دان گیئرت ولڈرز نے سن 2014ء میں پرواز MH-17 کے مار گرائے جانے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018ء میں ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی۔ تاہم روس کے ایک حالیہ دورے کے بعد ان کے موقف میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ نیٹو اور امریکا کے حامی ہیں لیکن مہاجرت کے بحران اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف روس ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Dejong
اٹلی کے نئے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی
اٹلی میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت میں عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ اور فائیو اسٹار موومنٹ شامل ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں روس پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کو ’جارحانہ‘ اقدامات نہیں کرنا چاہییں۔ لیگ کے اعلیٰ رہنما ماتیو سالوینی ملک کے نئے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘۔