پناہ گزینوں کو سیاسی مقاصد کے لیے نشانہ نہ بنایا جائے، پوپ
5 دسمبر 2021
دنیا بھر کے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے آج یونانی جزیرے لیسبوس میں پناہ گزینوں کے ایک مرکز کا دورہ کیا۔ اس دوران پاپائے روم نے پناہ گزینوں کو سیاسی پروپیگینڈا کے لیے نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی۔
اشتہار
پوپ فرانسس نے ماورونی نامی پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بسنے والے پناہ کے متلاشی افراد سے ملاقات کے بعد کہا کہ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے خوف پھیلانا بہت آسان ہے۔ پوپ نے مہاجرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں ان کی آنکھوں میں دیکھنے آئے ہیں جو کہ خوف اور امید سے بھری ہیں۔
اس سے قبل پوپ فرانسس سن 2016 میں یونانی جزیرے پر موجود پناہ گزینوں سے ملاقات کے بعد بارہ مسلمان شامی مہاجرین کو پناہ فراہم کرنے کے لیے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد لیسبوس جزیرے کو یورپی سرزمین تک پہنچنے کے لیے ایک گیٹ وے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
پناہ گزینوں سے اظہار یکجہتی
یونان کے اپنے دورے کے دوسرے دن، پوپ فرانسس نے دھاتی رکاوٹوں کے پیچھے کھڑے زیادہ تر پناہ کے متلاشی بچوں کے ایک چھوٹے سے گروپ سے ملاقات کی۔ وہاں موجود پوپ کے ایک مداح نے کہا "آئی لوو یو"۔
اس مرتبہ پوپ کا لیسبوس کا دورہ ان کے آخری دورے سے مختصر ہو گا۔ حکام نے بتایا کہ وہ آج ہی واپس ایتھنز جائیں گے تاکہ میگارون ایتھنز کنسرٹ ہال میں تقریباً 2,500 لوگوں کے اجتماع میں شرکت کر سکیں۔
ہفتے کے روز اپنے ایتھنز کے دورے کے آغاز میں، پوپ فرانسس نے کہا کہ یورپ مہاجرت کے حوالے سے ''یکجہتی کے انجن‘‘ کے طور پر کام کرنے کے بجائے ''قوم پرستانہ انا پرستی‘‘ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا ''آج نہ صرف یورپ میں بلکہ دنیا بھر میں ہم جمہوریت کی پسپائی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔‘‘
دنیا بھر میں خطرات سے بھاگتے ہوئے مہاجرین کی بے بسی
جنگ، ظلم و ستم، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے سبب دنیا بھر میں تقریباﹰ 82.4 ملین افراد تحفظ کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا بچوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: KM Asad/dpa/picture alliance
سمندر میں ڈوبتا بچہ
یہ بچہ صرف دو مہینے کا تھا جب ہسپانوی پولیس کے ایک غوطہ خور نے اسے ڈوبنے سے بچایا تھا۔ گزشتہ ماہ ہزاروں افراد نے مراکش سے بحیرہ روم کو عبور کرتے ہوئے یورپ پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ اس تصویر کو خود مختار ہسپانوی شہر سبتہ میں مہاجرین کے بحران کی نمایاں عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Guardia Civil/AP Photo/picture alliance
کوئی امید نظر نہیں آتی
بحیرہ روم دنیا کے خطرناک ترین غیرقانونی نقل مکانی کے راستوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے افریقی پناہ گزین سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے میں ناکامی کے بعد لیبیا میں پھنس جاتے ہیں۔ طرابلس میں یہ نوجوان، جن میں سے بہت سے ابھی بھی نابالغ ہیں، لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کو اکثر مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: MAHMUD TURKIA/AFP via Getty Images
سوٹ کیس میں بند زندگی
بنگلہ دیش میں کوکس بازار کا مہاجر کیمپ دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہوں میں سے ایک ہے، جہاں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں وہاں بچوں پر تشدد، منشیات، انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر اور چائلڈ میرج جیسے مسائل کے خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔
تصویر: DANISH SIDDIQUI/REUTERS
حالیہ بحران
ایتھوپیا کے صوبے تیگرائی میں خانہ جنگی نے مہاجرین کے ایک اور بحران کو جنم دے دیا۔ تیگرائی کی 90 فیصد آبادی کا انحصار غیرملکی انسانی امداد پر ہے۔ تقریباﹰ 1.6 ملین افراد سوڈان فرار ہو گئے۔ ان میں سات لاکھ بیس ہزار بچے میں شامل ہیں۔ یہ پناہ گزین عارضی کیمپوں میں پھنسے ہیں اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
تصویر: BAZ RATNER/REUTERS
پناہ گزین کہاں جائیں؟
ترکی میں پھنسے شامی اور افغان پناہ گزین اکثر یونان کے جزیروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونانی جزیرے لیسبوس کے موریا مہاجر کیمپ میں کئی پناہ گزین بستے تھے۔ اس کیمپ میں گزشتہ برس ستمبر میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ موریا کیمپ کی یہ مہاجر فیملی اب ایتھنز میں رہتی ہے لیکن ان کو اپنی اگلی منزل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Karahalis
ایک کٹھن زندگی
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ’افغان بستی ریفیوجی کیمپ‘ میں مقیم افغان بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے۔ یہ کیمپ سن 1979 کے دوران افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد سے موجود ہے۔ وہاں رہائش کا بندوبست انتہائی خراب ہیں۔ اس کیمپ میں پینے کے صاف پانی اور مناسب رہائش کی سہولیات کا فقدان ہے۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
بقائے حیات کے لیے امداد
وینزویلا کے بہت سے خاندان اپنے آبائی ملک میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے ہمسایہ ملک کولمبیا چلے جاتے ہیں۔ وہاں انہیں غیرسرکاری تنظیم ریڈ کراس کی طرف سے طبی اور غذائی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ریڈکراس نے سرحدی قصبے آرائوکیتا کے ایک اسکول میں ایک عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔
تصویر: Luisa Gonzalez/REUTERS
ایک ادھورا انضمام
جرمنی میں بہت سے پناہ گزین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔ جرمن شہر کارلس روہے کے لرنفروئنڈے ہاؤس میں مہاجرین والدین کے بچے جرمن اسکولوں میں داخلے کے لیے تیار تھے لیکن کووڈ انیس کی وبا کے سبب ان بچوں نے جرمن معاشرے میں ضم ہونے کا اہم ترین موقع کھو دیا۔
تصویر: Uli Deck/dpa/picture alliance
8 تصاویر1 | 8
یونان میں پناہ گزینوں کی حالات زار
یورپی یونین کی امداد سے یونان اپنے جزیروں پر خاردار تاروں کی باڑ، نگرانی کے کیمروں، ایکس رے اسکینرز اور رات کے وقت بند ہونے والے مقناطیسی دروازوں کے ساتھ مہاجرین کے لیے رہائشی سہولیات بنا رہا ہے۔ ایسے تین کیمپ ساموس، لیروس اور کوس کے جزیروں پر کھل چکے ہیں۔ اگلے سال لیسبوس اور خیوس میں بھی ایسے کیمپ تیار کر لیے جائیں گے۔ جب تارکین وطن کو پناہ گزین کا درجہ مل جاتا ہے تو وہ ان کیمپوں میں رہائش اختیار نہیں کر سکتے لیکن ان میں سے بہت سے مہاجرین نہ ملازمت تلاش کر پاتے ہیں اور نہ ہی اپنے لیے رہائش گاہ۔ ناقدین کی رائے میں یونان کے ان مہاجر کیمپوں سے دراصل پناہ کے متلاشی افراد کی نقل و حرکت کو محدود کیا جا رہا ہے۔
یونان میں مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم چھتیس گروپوں نے پوپ فرانسس کو ایک خط میں ریفیوجی کیمپوں میں مقیم افراد کی حالات زار کے بارے میں لکھا ہے اور کہا ہے کہ کئی افراد کو یونانی حکام ملک میں قدم رکھنے سے پہلے ہی زبردستی واپس بھیج دیتے ہیں۔ ایتھنز حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔