کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس اگلے سال مارچ میں عراق کے دورے پر جائیں گے۔ انہوں نے اس دورے کو ’تاریخی اہمیت‘ کا حامل قرار دیا ہے۔
اشتہار
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے عراق اور وہاں کے مقامی چرچ کی جانب سے دی گئی دعوت قبول کرلی ہے۔ وہ اگلے سال پانچ سے آٹھ مارچ کے درمیان عراق کا دورہ کریں گے۔ کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے بعد یہ ان کا کسی بیرونی ملک کا پہلا دورہ ہوگا۔
پاپائے روم کے ترجمان میٹیو برونی نے پوپ فرانسس کے عراق کے مجوزہ دورے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 83 سالہ مسیحی روحانی پیشوا عراق کے دارالحکومت بغداد کے علاوہ اربیل اور موصل شہروں کا بھی دورہ کریں گے۔ تاہم ان کا یہ دورہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے پیدا شدہ ”ہیلتھ ایمرجنسی" کی عالمی صورت حال پر منحصر ہو گا۔
عراقی صدر برہم صالح نے بھی پوپ فرانسس کے دورے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 'عزت مآب پوپ مارچ 2021 ء میں عراق کا دورہ کریں گے۔‘
اپنے ایک ٹوئٹ میں برہم صالح نے کہا کہ 'تہذیب کا گہوارہ، آسمانی کتابوں پرایمان رکھنے والوں کے آبا، پیغمبر حضرت ابراہیم کی جائے پیدائش، میسوپوٹامیہ کا پوپ فرانسس کا سفر عراق میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے امن کا پیغام ہوگا اور انصاف اور وقار کی مشترکہ قدروں کے تئیں ہماری عہد بندی کو مستحکم کرے گا۔"
عراقی وزارت خارجہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ دورہ 'تاریخی اہمیت‘ کا حامل ہوگا اور اس سے خطے میں رواداری اور تنوع کو فرو غ ملے گا۔" بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پوپ فرانسس کا عراق آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانیت سب سے بلند ہے اور اس سے مذہبی انتہا پسندی کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
ویٹیکن کی نیوز ویب سائٹ کے مطابق اگر پوپ فرانسس اپنے اس مجوزہ دورے پر جاتے ہیں تو یہ کسی پاپائے روم کا عراق کا اب تک کا پہلا دورہ ہوگا۔ یہ دورہ ناصرف عراق کے لیے اہمیت رکھتا ہے بلکہ خطے میں امن کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔
پوپ فرانسس نے گزشتہ برس کہا تھا کہ وہ عراق جانا چاہتے ہیں تاہم کورونا وائرس کی وبا کے سبب انہوں نے تمام سفر منسوخ کردیے تھے۔ اب پہلی مرتبہ وہ اٹلی سے باہر قدم رکھنے جارہے ہیں۔
پوپ فرانسس کا کہنا ہے کہ”عراق میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو میں امن کا پیغام دینا چاہتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ عدل اور وقار کے سب معیار برقرار رکھے جائیں اور انسانیت کا بول بالا ہو۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ”عراق کی مستقل مزاجی بہت اچھی ہے اس لیے میں وہاں اگلے سال جانا چاہتا ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ اب مستقبل میں عراق امن کا ایک خوبصورت چہرہ ثابت ہو گا اور مذہب سمیت ہر قسم کی انتہا پسندی کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔"
جب پاپائے روم نے سوڈانی رہنماؤں کے پاؤں چومے
00:54
پوپ فرانسس نے پاپائے روم کی حیثیت سے مسیحیت اور اسلام کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ گزشتہ برس فروری میں انہوں نے متحدہ عرب امارات اور مراکش کے دورے کیے تھے۔ ابوظہبی کے دورے کے دوران انہوں نے جامعہ اظہر کے مفتی اور امام احمد الطیب سے ملاقات کی تھی اور دونو ں مذہبی رہنماوں نے 'انسانی بھائی چارہ کے دستاویز پر دستخط کیے تھے۔
اس سے قبل وہ سن 2014 میں ترکی، سن 2016 میں آذربائیجان اور سن 2017 ء میں مصر کے دورے کرچکے ہیں۔
ج ا / ک م (ڈی پی اے، اے ایف پی)
مذہبی خواتین اپنا سر کیسے ڈھانپتی ہیں؟
اسلام، مسیحیت یا یہودیت، ان تمام مذاہب میں خواتین کسی نہ کسی طریقے سے پردے کی غرض سے اپنے سر کو ڈھانپتی ہیں۔ ان مذاہب میں اس طرح کے پردے میں کیا مماثلتیں ہیں اور یہ خواتین ان مذہبی پابندیوں کو کیسے دیکھتی ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پردے کے پیچھے
’’ایسی مسلم خواتین، جو ہیڈ اسکارف پہنتی ہیں، وہ اپنے مذہبی عقائد کے باعث کٹھ پتلیاں نہیں ہیں‘‘، یہ کہنا ہے ترک ویڈیو آرٹسٹ نیلبار گیریش کا۔ سن دو ہزار چھ کی Undressing نامی اس پرفارمنس میں گیریش دکھاتی ہیں کہ ایک خاتون ایک کے بعد دوسرا پردہ اتارتی ہے اور ساتھ ہی اپنی فیملی کی مختلف خواتین کے نام بڑبڑاتی ہے۔ انہوں نے یہ پراجیکٹ نائن الیون کے بعد مغرب میں اسلاموفوبیا میں اضافے کے ردعمل میں کیا تھا۔
تصویر: Nilbar Güres
جعلی بال
آنا شیتن شلیگر کا Covered نامی سیلف پورٹریٹ 2009ء میں منظر عام پر آیا، جس میں وہ دو مختلف وِگز پہنے ہوئی ہیں۔ کسی زمانے میں یہودی مذہبی خواتین اس طرح کی وگ کا استعمال کرتی تھیں۔ سترہویں صدی کے اختتام سے ان خواتین نے اپنے بالوں کے پردے کے لیے tichel نامی ایک خاص قسم کا اسکارف پہننا شروع کیا۔ کبھی ایسی وگز بھی فیشن میں رہیں، جو آرتھوڈوکس یہودی خواتین کے scheitel نامی حجاب کا ایک بہترین متبادل تھیں۔
تصویر: Anna Shteynshleyger
ایک عقیدہ، مختلف مذاہب
مسلم خواتین مختلف قسم کے اسکارف یا حجاب لیتی ہیں۔ لیکن ان سب کا مطلب کیا ہے؟ مخصوص قسم کا ہیڈ اسکارف دراصل ایک خاص مذہبی عقیدے اور ثقافتی پس منظر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ کٹر نظریات کے حامل مسلمانوں میں ہیڈ اسکارف کو ایک اہم مذہبی جزو قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Jüdisches Museum Berlin/Yves Sucksdorff
مذہبی اجتماعات میں سر کا پردہ
فوٹو گرافر ماریہ میہائلوف نے برلن میں روسی آرتھوڈوکس کلیسا میں ہونے والی عبادات کو عکس بند کیا ہے۔ ان عبادات اور تقریبات کے دوران خواتین اپنے سر کو سکارف سے ڈھکتی ہیں۔ یہ ایک ایسا مظہر ہے، جو اب کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسا میں کم ہی دکھنے میں آتا ہے۔
تصویر: Marija Mihailova
بالوں میں ڈھکی ہوئی خاتون
لمبے، گھنے اور سیاہ بال عرب ممالک میں خوبصورتی کی علامت ہیں۔ یہی بات اس مجسمے میں ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سویڈن کی ایرانی نژاد آرٹسٹ ماندانہ مقدم نے اپنے Chelgis I نامی اس مجسمے میں دکھایا ہے کہ اگرچہ بال عورت کی خوبصورتی کی علامت ہیں لیکن یہی بال ایک ایسا پردہ تخلیق کرنے کا باعث بنے ہیں، جس سے اس کی شناخت چھپ جاتی ہے۔
تصویر: Mandana Moghaddam
بال، صرف شوہر کی آنکھوں کے لیے
الٹرا آرتھوڈوکس یہودی روایات کے مطابق کسی خاتون کی شادی کے بعد اس کے بال صرف اس کا شوہر ہی دیکھ سکتا ہے۔ اس لیے شادی شدہ خاتون کو اپنے بال پردے میں رکھنا چاہییں، چاہے اس مقصد کی خاطر ہیڈ اسکارف پہنا جائے، مصنوعی بال(وِگ) استعمال کیے جائیں یا بالوں کو کسی اور طریقے سے ڈھانپ لیا جائے۔ یہ تصویر Leora Laor نے سن دو ہزار ایک میں یروشلم میں بنائی تھی، جس میں خواتین tichel نامی حجاب میں نظر آ رہی ہیں۔
تصویر: Leora Laor
مختلف تشریحات
یہودی خواتین کی یہ تصویر فیڈریکا والابریگا نے سن دو ہزار گیارہ میں نیو یارک کے قریب ایک ساحل سمندر پر بنائی تھی۔ اگرچہ ان تمام خواتین نے ہیڈ اسکارف پہن رکھے ہیں لیکن ان کے بال ان حجابوں سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ مذہبی عقائد تو بہت سے ہیں لیکن اس کا انحصار اس کے ماننے والوں پر ہے کہ وہ کس طرح ان کی تشریحات کرتے ہیں۔
تصویر: Federica Valabrega
بُرکینی سے پردہ
سمندر میں پیراکی کے دوران بھی اپنے عقائد سے وفادار رہنا؟ مغربی ممالک میں مقیم بہت سی مسلم خواتین کے لیے بُرکینی نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے کہ اپنے عقائد پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بھی کھلے آسمان تلے سمندر میں انجوائے کر سکتی ہیں۔ تاہم مغرب میں بھی کئی حلقے اس سوئمنگ سوٹ کو مسلم بنیاد پرستی کی علامت کے طور پر ’اشتعال انگیز‘ قرار دیتے ہیں۔