پوپ فرانسِس اپنے دورے پر میانمار پہنچ گئے ہیں۔ وہ یہ دورہ ایک ایسے موقع پر کر رہے ہیں، جب میانمار کی راکھین ریاست میں جاری عسکری کارروائی کی وجہ سے چھ لاکھ روہنگیا بنگلہ ديش ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اشتہار
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسِس کا آج ینگون سے شروع ہونے والا دورہ دو دسمبر کو ڈھاکا میں یوتھ ریلی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گا۔ ڈھاکا میں پوپ روہنگیا مسلمانوں کے ایک وفد سے ملاقات کے علاوہ اعلیٰ حکومتی شخصیات سے بھی ملیں گے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ اس وقت عالمی میڈیا پر اہم ترین سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا اپنے اس دورے میں پوپ فرانسِس ’روہنگیا‘ کا لفظ استعمال کریں گے یا نہیں؟
ان کا یہ دورہ اس اعتبار سے انتہائی اہم ہے کہ اس وقت میانمار میں بدھ قوم پرست جذبات انتہائی زوروں پر ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پوپ فرانسِس اپنے اس دورے میں بین المذاہب مکالمت اور مفاہمت کا پیغام عام کریں گے۔
سخت گیر خیالات کے حامل بدھ بھکشوؤں کا ایک گروپ حالیہ کچھ برسوں سے مسلسل اسلام سے خطرات کے نعرے بلند کر کے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز کارروائیوں میں مصروف ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق ان بدھ بھکشوؤں کی کارروائیاں اس قدر جارحانہ رہی ہیں کہ انہیں ’بدھ دہشت گردی‘ تک کے القابات سے پکارا جا رہا ہے۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
8 تصاویر1 | 8
رواں برس اگست میں ملکی فوج نے راکھین ریاست میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف عسکری کارروائی کا آغاز کیا، تو ملک کے مختلف علاقوں میں ان سخت گیر خیالات کے حامل بدھ بھکشوؤں کی جانب سے عسکری کریک ڈاؤن کے حق میں مظاہرے بھی کیے جاتے رہے۔ اے ایف پی کا کہنا ہے کہ ایسے گروپوں کی مقبولیت میں حالیہ کچھ عرصے میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ راکھین میں جاری عسکری کارروائی کے نتیجے میں چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔
اسی تناظر میں میانمار کی حکومت کو اقوام متحدہ، امریکا اور عالمی برادری کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے جب کہ اس کے جواب میں میانمار میں داخلی سطح پر سخت گیر موقف کی حامل آوازوں کو مزید پذیرائی ملی ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا کی بنگلہ دیش آمد کا سلسلہ جاری
00:45
میانمار اور بنگلہ دیش میں مسیحیوں کی ایک معمولی اقلیت بستی ہے اور اس دورے میں ان مسیحیوں سے ملنے کے علاوہ میانمار کی نوبل امن انعام یافتہ سویلین لیڈر آنگ سان سوچی اور فوجی سربراہ جنرل کے علاوہ بدھ مذہبی رہنماؤں سے بھی ملیں گے۔