پيرس ميں حلال گوشت کا بڑھتا رجحان سياسی رخ اختيار کر گيا
21 فروری 2012خبر رساں ادارے روئٹرز کی ايک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دنوں ايک فرانسيسی ٹيلی وژن چينل پر نشر کی جانے والی دستاويزی فلم ميں انکشاف کيا گيا کہ پيرس ميں تقريبا تمام ذبحہ خانے بڑھتی ہوئی مانگ کے پيش نظر حلال گوشت بيچتے ہيں۔ اس دستاويزی فلم کے نشر ہونے کے بعد بعض سياسی جماعتيں اور ان کے ارکان اس رجحان پر مشتعل نظر آتے ہيں۔ چند سیاست دان اس مسئلے کو اپريل اور مئی ميں ہونے والے صدارتی انتخابات کے ليے اپنے سياسی منشور ميں بھی شامل کر رہے ہيں۔ اس حوالے سے لیل ميں منعقدہ ايک ريلی سے خطاب کرتے ہوئے Marine Le Pen نامی صدارتی امیدوار نے کہا، ’ پيرس ميں تمام ذبحہ خانے ايک اقليت کے طريقہ کار پر چل بيٹھے ہيں‘۔ انہوں نے مزيد کہا کہ وہ اس حوالے سے قانونی کاروائی کی اپيل بھی کريں گی۔
پيرس سے تعلق رکھنے والے مقامی مويشيوں کے گروپ کے سربراہ Jean-Francois Hallepee نے بتايا ہے کہ ان کے گروپ کے ايک جائزے کے مطابق پيرس اور اس سے منسلک علاقوں ميں 100 فيصد ذبحہ خانے اسلامی طريقے کے مطابق جانوروں کو ذبحہ کرتے ہيں۔ اس اقدام کے نتيجے ميں ملک ميں موجود تمام افراد کو دانستہ يا غير دانستہ طور پر حلال گوشت بيچا جا رہا ہے۔ دوسری جانب مقامی حکام کے مطابق يہ تاثر درست نہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ پيرس ميں بيچا جانے والا گوشت شہر سے باہر واقع ذبحہ خانوں سے آتا ہے اور ان سب ميں اسلامی طريقہ استعمال نہيں کيا جاتا۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق فرانس ميں حلال اشياء کی مارکيٹ، نامیاتی اشياء کی مارکيٹ سے دو گنا بڑی ہے اور اس ميں سالانہ طور پر بيس فيصد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ فرانس ميں موجود مسلمان تعداد کے اعتبار سے ملکی اور يورپی سطح پر سب سے بڑی اقليت مانے جاتے ہيں۔ مجموعی طور پر فرانس ميں پانچ ملين مسلمان رہتے ہيں۔ حلال گوشت کے حوالے سے فرانس اور خاص طور پر پيرس کے اسکولوں، ہسپتالوں، دفاتر اور ديگر مقامات پر بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث ان دنوں مسلمان اور غير مسلم گروہوں ميں تنازعات بھی دیکھنے کو مل رہے ہيں۔
رپورٹ: عاصم سليم
ادارت: شادی خان سيف