پٹرول کی قیمت میں اضافہ، مہنگائی کے سونامی کا پیش خیمہ
16 فروری 2022ناقدین کے خیال میں یہ اضافہ جو 28 فروری تک قائم رہے گا پیٹرولیم کی مصنوعات میں تاریخی اضافہ ہے۔ حکومت اس اضافہ کا دفاع کر رہی ہے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے اپنے ایک بیان میں اس اضافے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات میں قیمتوں کے اضافے کے باوجود سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم نہیں ہوئی۔ حکومتی اکابرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پیٹرولیم کی مصنوعات میں اضافہ نہیں کرتی تو اسے سبسڈی دینا پڑے گی جس کے لیے مزید قرضے لینا پڑیں گے اور اس سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
اکثر پاکستانی میڈیا میں یہ خبر آتی ہے کہ وزیراعظم نے اوگرا کی سمری مسترد کر دی اور پیٹرولیم کی مصنوعات میں اتنا اضافہ نہیں کیا جتنا کے اوگرا نے اپنی سفارش میں بھیجا تھا۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت اوگرا کی طرف سے بھیجی گئی ان قیمتوں میں ردوبدل نہیں کر سکتی۔ اوگرا کے ترجمان عمران غزنوی نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''اوگرا تمام عوامل کو پیش نظر رکھ کر ہی پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمت کا تعین کرتی ہے اور سفارشات حکومت کو بھیجتی ہے حکومت عموماﹰ ان سفارشات میں ردوبدل نہیں کرتی تاہم یہ اس کا اختیار ہے کہ وہ پٹرولیم لیوی یا سیلز ٹیکس میں کمی بیشی کرے۔‘‘
قیمت کیوں بڑھائی گئی؟
ناقدین کا خیال ہے کہ ملک میں جو مہنگائی بڑھ رہی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے ہیں اور ان کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں مزید مہنگائی کا طوفان اٹھے گا۔ وزارت خزانہ کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''بات سیدھی سی ہے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کو مہنگا خرید کر سستے داموں نہیں بیچ سکتی ملکی معیشت پر پہلے ہی بہت دباؤ ہے۔ ہمیں پٹرولیم لیوی کی مد میں 600 ارب روپے سے زیادہ جمع کرنے ہیں۔ اگر حکومت قیمتیں نہیں بڑھائے گی تو پھر کیا کرےگی؟ لہٰذا حکومت نے چار روپے پیٹرولیم لیوی میں بڑھائے ہیں جب کہ سیلز ٹیکس پہلے ہی زیرو ہے۔‘‘
مہنگائی کا سونامی
ناقدین کا خیال ہے کہ پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ صرف ایک منظر ہے ابھی مزید مشکلات آنا ہیں۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ مہنگائی کا ایک بہت بڑا سونامی آنے والا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بے تحاشہ اضافے کے بعد کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہو جائیں گی، جس سے غریب آدمی کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوگا اور ملک میں غربت مزید بڑھے گی۔‘‘
قیصر بنگالی کے بقول اس کے علاوہ معیشت کو بھی بہت بڑا دھچکہ لگے گا: ''اب بجلی بنانے والے حکومت پر دباؤ ڈالیں گے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ صنعتی یونٹ بند ہو جائیں گے۔ کچھ اپنی پیداوار کو کم کردیں گے اور کچھ مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور شاید مکمل طور پر بند ہو جائیں جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا اور پیداواری لاگت بھی بڑھ جائے گی۔‘‘
پی ٹی آئی کا موقف
حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس اضافے کو ظالمانہ قرار دیا ہے اور وہ اس کے خلاف بھرپور سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے جس طرح ملک کو قرضوں کے دلدل میں دھکیلا ہے اس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی حکومت اس بات پر مجبور ہے کہ وہ اس طرح پیٹرولیم کی مصنوعات میں اضافہ کرے اور مزید ٹیکس لگائے تاکہ ان قرضوں کی ادائیگی کی جائے اور ملک کو معاشی طور پر کوئی بڑا نقصان نہ ہو۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے کہ اس اضافے کے باوجود حکومت غریب افراد کا خیال رکھنے کی پوری کوشش کرے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جو لوگ ماضی کی حکومتوں کی بات کر رہے ہیں ان کو یہ بات پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ماضی میں ڈالر کی قیمت بھی کم تھی جب کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت بھی بہت کم تھی اس کے باوجود نواز شریف اور زرداری حکومت نے پیٹرولیم کی مصنوعات میں اضافہ کیا ہمارا اضافہ صرف اس وجہ سے ہے کیونکہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم کی مصنوعات مہنگی ہوگئی ہیں تو مجبوراً ہمیں بھی اضافہ کرنا پڑا۔‘‘
محمد اقبال خان آفریدی کے مطابق اس اضافے کے پیش نظرحکومت غریب لوگوں کے لیے ریلیف پیکیج لے کر آ رہی ہے: ''ہمارا احساس پروگرام انتہائی غریب افراد کے لیے پہلے ہی خدمات انجام دے رہا ہے جبکہ شیلٹر ہاؤس بھی مستحق لوگوں کی خدمت میں مصروف ہے۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کی ہے اور حکومت کوشش کر رہی ہے کہ ملک میں رہنے والے غریب افراد کے لیے کوئی ریلیف پیکیج لے کر آئے تو انشاءاللہ پھر اس اضافے سے جو انتہائی غریب لوگ ہیں وہ متاثر نہیں ہوں گے جبکہ اس ریلیف پیکج کا فائدہ متوسط طبقہ کو بھی ہوگا۔‘‘