پٹڑی سے اتر جانے والی میٹرو ٹرین کو ’وہیل مچھلی‘ نے روک لیا
2 نومبر 2020
نیدرلینڈز کے شہر روٹرڈیم کے قریب ایک میٹرو ٹرین پٹڑی سے اتر کر ہوا میں معلق ہو گئی لیکن اسے ایک ’وہیل مچھلی‘ نے اپنی دم سے سہارا دے کر زمین پر گرنے سے روک لیا۔ اس حادثے میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔
اشتہار
یہ واقعہ روٹرڈیم کے نواح میں Spijkenisse کے مقام پر ایک ایسی مقامی ٹرام کو پیش آیا، جسے اس کا ڈرائیور زمین سے کافی بلندی پر بنے ہوئے آخری اسٹیشن پر روکنا چاہتا تھا۔ لیکن یکدم اس میٹرو ٹرین نے رفتار پکڑ لی اور پٹڑی کے آخری سرے پر بنے ہوئے حفاظتی بند سے ٹکرا کر اسے توڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔
پٹڑی سے سیدھی وہیل کی دم پر
چاروں طرف سے پانی میں گھرا ہوا یہ اسٹیشن کنکریٹ کے بڑے بڑے ستونوں کی مدد سے زمین سے کافی بلندی پر بنا ہوا ہے۔ اس لیے یہ لازمی تھا کہ یہ میٹرو پٹڑی سے اترنے کے بعد کافی اونچائی سے سیدھی زمین پر جا گرتی۔ لیکن یہی بات اس حادثے کا سب سے حیران کن پہلو ہے کہ جو کچھ یقینی طور پر ہو سکتا تھا وہی نہ ہوا۔
اس اسٹیشن کے نیچے پانی کے کنارے عظیم الجثہ فن پاروں کے طور پر دھات کی بنی ہوئی دو بہت بڑی بڑی وہیل مچھلیاں بھی ہیں۔ میٹرو ٹرین جب پٹڑی سے اتر کر باہر کو نکلی تو دونوں میں سے ایک وہیل مچھلی نے اسے اپنی دم سے روک لیا اور یہ زمین پر گرنے کے بجائے ہوا میں معلق ہو کر رہ گئی۔
فن پارے کی فنکارانہ حرکت
وہیل مچھلی نے اس میٹرو کو اپنی دم سے اس لیے روکا کہ قریب قریب نصب کیے گئے دو فن پاروں کے طور پر یہ وہیل مچھلیاں اس طرح بنائی گئی ہیں، جیسے یہ کھیلتے کھیلتے پانی میں اس طرح چھلانگ لگا رہی ہوں کہ ان کے سر تو پانی میں ہوں لیکن دمیں ہوا میں۔
اس واقعے کے فوری بعد موقع پر پہنچنے والے امدادی کارکن بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ 'فن پاروں کے طور پر بنائی گئی‘ وہیل مچھلیوں میں سے ایک نے کتنے 'فنکارانہ' طریقے سے اس میٹرو ٹرین کو دس میٹر کی بلندی سے نیچے سے گزرنے والے نہر میں گرنے سے بچا لیا تھا۔
ڈرائیور بھی خود ہی نیچے اتر آیا
مقامی میٹرو کمپنی کے مطابق تاحال یہ واضح نہیں کہ یہ حادثہ کیوں پیش آیا، تاہم اس واقعے میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔ اس میٹرو ٹرین کا ڈرائیور بھی وہیل مچھلی کی دم پر رکی ہوئی اس ٹرام کی پہلی بوگی میں اپنے کیبن سے باہر نکل کر خود ہی بحفاظت نیچے اتر آیا تھا۔ آخری اسٹیشن ہونے کی وجہ سے اس وقت اس سب وے ٹرین میں کوئی مسافر سوار نہیں تھا۔
اس حادثے میں میٹرو ٹرین کا کافی نقصان پہنچا اور امدادی کارکن اسے کرین کے ذریعے وہیل مچھلی کی دم سے اٹھا کر واپس پٹڑی پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
م م / ع ا (ڈی ی اے، اے آر ڈی، اے پی ای)
خود فیصلہ کرنے والی کاریں
خودکار طریقے سے سفر کرنے والی کاریں تیار تو ہو چکی ہیں تاہم بغیر ڈرائیور کے کار کا سفر آسان فیصلہ نہیں ہے۔ اگر کوئی حادثہ ہوتا ہے تو کون ذمہ دار ہو گا؟ اور کیا لوگ اس کے لیے تیار ہیں کہ کاریں ان کے لیے خود فیصلہ کریں؟
تصویر: media.daimler.com
انتہائی آرام دہ
مرسیڈیز بینز کا یہ پروٹوٹائپ، F015 دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ایک خودکار گاڑی دیکھنے میں کس طرح کی ہو گی۔ اس میں ڈرائیور کی کوئی سیٹ ہو گی ہی نہیں اور مسافروں کا رُخ ایک دوسرے کی جانب ہے۔ یہ پروٹوٹائپ بھی سیلیکان ویلی میں ہی تیار کیا گیا ہے۔ یہ کار زیادہ سے زیادہ 125 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتی ہے۔
تصویر: media.daimler.com
سیلیکان ویلی سے لاس ویگاس تک کا سفر
اس آؤڈی سیون میں بے شمار سینسرز لگے ہیں۔ رواں برس کے آغاز میں اس کار نے سیلیکان ویلی سے لاس ویگاس تک کا سفر کیا جہاں یہ CES ٹریڈ فیئر میں شریک ہوئی۔ 600 میل کے اس سفر میں ایک ڈرائیور تمام وقت اسٹیئرنگ کے پیچھے موجود رہا تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں وہ کنٹرول سنبھال سکے۔ تاہم اس سفر میں یہ سب کچھ درست رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Fets/Audi AG
کیا اصل ٹریفک میں سفر ممکن؟
گوگل اپنی تیار کردہ روبوٹک گاڑی کو کافی عرصے تک پہاڑی علاقوں میں بھی آزماتا رہا ہے۔ تاہم اب تک ایسی گاڑی میں ایک ڈرائیور ہر وقت موجود رہتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ کنٹرول سنبھال سکے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
بے صبرے لوگوں کے لیے نہیں
خودکار طریقے سے سفر کرنے والی کاریں انتہائی محفوظ ہیں۔ اگر سڑک پر صورتحال درست نہیں ہے تو اس کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ یہ اپنے سے آگے والی کار سے ایک محفوظ فاصلہ برقرار رکھتی ہے اور سامنے والی کار کے ساتھ بالکل جُڑ کر نہیں چلتی۔
تصویر: imago/Jochen Tack
ایک کار دوسری کی پیروی میں
یہ دو خودکار گاڑیاں جرمن شہر میونخ میں واقع ’یونیورسٹی آف بنڈس ویئر‘ کی طرف سے تیار کی گئی ہیں اور یہ ’میولے سنیریو‘ میں سفر کر رہی ہیں جس میں پیچھے والی کار ہمیشہ اپنے سے آگے والی کار کی پیروی کرتی ہے۔ یہ کاریں دراصل ملٹری روبوٹک مقابلے میں شریک ہیں جس میں انہوں نے ناہموار راستوں پر سفر کرنا تھا، جس میں یہ کامیاب رہیں۔
تصویر: DW
حادثے سے بچاؤ
زیادہ تر حادثات محدود نظارے کی وجہ سے پیش آتے ہیں مثال کے طور پر دھند جیسی صورتحال وغیرہ۔ ایسے میں تیز رفتاری سے سفر کرنے والے مناسب فاصلہ قائم نہیں رکھ پاتے۔ تاہم مصنوعی ذہانت رکھنے والی روبوٹک گاڑیاں ایسی غلطی نہیں کرتیں۔ مستقبل میں کاریں آپس میں بھی معلومات کا تبادلہ کریں گی اور آگے والی کار پیچھے آنے والی کاروں کو ٹریفک جام وغیرہ کے بارے میں آگاہ کر دے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہر طرح کی معلومات حاصل کرنے کے لیے سینسرز
خودکار طریقے سے سفر کرنے والی یہ گاڑیاں اپنے ارد گِرد کی دنیا کو مختلف آنکھوں سے دیکھتی ہیں۔ گوگل کار ایک لیزر سینسر استعمال کرتی ہے جو اپنے ارد گرد ماحول کا سہہ جہتی یا تھری ڈی اسکین کرتا ہے۔
تصویر: DW/Fabian Schmidt
ایک لیزر اسکینر کی آنکھ سے دنیا کی تصویر
بنڈس ویئر یونیورسٹی کی کار غیر ہموار راستے پر سفر کر رہی ہے۔ لیزر ارد گرد کی چیزوں کو اسکین کرتی ہیں اور کمپیوٹر اس اسکین کی مدد سے ایک تھری ڈی نقشہ تیار کرتا ہے۔
تصویر: Universität der Bundeswehr/TAS
سیٹلائٹ، راڈار اور آپٹیکل آئی کی مدد سے سفر
یہ روبوٹک گاڑیاں دیگر سینسرز کی مدد بھی حاصل کرتی ہیں۔ جرمنی کے فرانھوفر انسٹیٹیوٹ فار کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن FKIE کی تیار کردہ یہ گاڑی ایک یو ایس بی کیمرہ استعمال کرتی ہے جو اس کے لیے نظر کا کام کرتا ہے۔ ایک چھوٹا راڈار اور GPS سینسرز کے ذریعے یہ نقشے پر اپنی بالکل پوزیشن کو برقرار رکھتی ہے۔
تصویر: DW/Fabian Schmidt
میڈ ان جرمنی
جرمن کمپنی ڈائملر میں بھی ریسرچرز خودکار کاروں کے لیے آپٹیکل کیمرے کا استعمال کر رہے ہیں۔ وِنڈ اسکرین کے پیچھے لگے کیمرے دیکھتے ہیں کہ سڑک پر کیا ہو رہا ہے اور پھر اس کے مطابق کار کا کمپیوٹر فیصلہ کرتا ہے۔ ڈائملر کا تیار کردہ یہ حفاظتی نظام 2011ء میں جرمنی کے انوویشن ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
حرکت کا ادراک پکسلز کی مدد سے
کار میں لگے سینسرز مختلف چیزوں کے بارے میں معلومات چھوٹے چھوٹے نقاط یا پکسلز کی صورت میں جمع کرتے ہیں۔ کمپیوٹر اس بات کا ادراک کرتا ہے کہ پکسلز کی مدد سے بننے والی تصویر میں سے کون سے حصے کس رفتار سے حرکت کر رہے ہیں۔ اس طرح کمپیوٹر کو معلوم ہوتا ہے کہ کار کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
بریک لگائی جائے یا پھر بچ کر گزرا جائے
روبوٹک کار کا کمپیوٹر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ سامنے آنے والا کوئی فرد یا چیز کس طرح حرکت کرے گی اور پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اس تصویر میں سڑک پر آنے والے شخص کو نارنجی رنگ سے ظاہر کیا گیا ہے جو خطرے کی علامت ہے جبکہ بائیں جانب ٹریفک سبز ہے مطلب اس طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔