پٹھان کوٹ حملہ، پاکستانی تفتیشی ٹیم بھارت میں
27 مارچ 2016 پاکستانی صوبہ پنجاب کے انسداد دہشت گردی محکمہ کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل محمد طاہر رائے کی قیادت میں پانچ رکنی مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) آج اتوار کو نئی دہلی پہنچی۔ انٹیلی جنس بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل لاہور محمد عظیم ارشد، ملٹری انٹیلی جنس کے لیفٹیننٹ کرنل عرفان مرزا، آئی ایس آئی کے لیفٹیننٹ کرنل تنویر احمد اور گوجرانوالہ میں تعینات پنجاب پولیس کے انسپکٹر شاہد تنویر اس ٹیم کے دیگر اراکین ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے جب بھارت نے ملک کے اندر ہوئے کسی دہشت گردانہ حملے کی انکوائری کے لیے پاکستانی تفتیش کاروں کو اجازت دی ہے۔ بھارتی تفتیش کاروں کا دعوٰی ہے کہ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر دو جنوری کو ہوئے دہشت گردانہ حملہ کرنے والے پاکستان سے آئے تھے اور اس حملے کا منصوبہ جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر نے تیار کیا تھا۔ خیال رہے کہ مسعود اظہر کو 1999ء میں افغانستان کے شہر قندھار میں انڈین ایئرلائنس کے اغوا شدہ طیارہ کے مسافروں کی رہائی کے بدلے بھارت کی ایک جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ بھارت کو امید ہے کہ پاکستان مسعود اظہر سمیت دیگر انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کرے گا۔
یہاں سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی تفتیشی ٹیم منگل کو پٹھان کوٹ جائے گی اور گواہوں سے پوچھ گچھ کرے گی۔ لیکن جے آئی ٹی کو ایئر بیس کے اس مخصوص علاقے تک ہی جانے کی اجازت ہو گی، جہاں حملے میں سات سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے اور سیکورٹی اہلکاروں نے اسّی گھنٹے تک چلنے والی کارروائی کے بعدچھ حملہ آوروں کو بھی ہلاک کر دیا تھا۔ ایئر بیس کی خصوصی حصار بندی کی جارہی ہے تاکہ حساس مقامات کو پاکستانی تفتیشی ٹیم کی نگاہوں سے بچایا جاسکے۔ جے آئی ٹی بدھ کو بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کے نئی دہلی واقع ہیڈکوارٹر واپس لوٹ آئے گی۔ اس سے قبل کل پیر کو پاکستانی تفتیشی ٹیم کو تفصیلی بریف کیا جائے گا، جس میں اب تک کی تفتیش پر مشتمل 90 منٹ کی ایک پرزینٹیشن بھی شامل ہے۔ انہیں حملے میں مارے گئے چار دہشت گردوں کے آبائی گاؤں اور بھارت میں داخل ہونے میں مدد کرنے والے افراد کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں گی۔
پٹھان کوٹ میں پاکستانی تفتیشی ٹیم جن گواہوں سے پوچھ گچھ کرے گی ان میں نیشنل سیکورٹی گارڈ، بارڈر سیکورٹی فورسز اور بھارتی فضائیہ کے گارڈ کمانڈوز اور سترہ زخمی افراد کے علاوہ پنجاب پولیس کے سپرنٹنڈنٹ سلوندر سنگھ، ان کے دوست راجیش ورما اور باورچی مدن گوپال بھی شامل ہیں۔ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے سے قبل ان تینوں افراد کو دہشت گردوں نے اغوا کر لیا تھا۔
بھارت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس دہشت گردانہ حملے کی تفتیش میں پاکستانی ٹیم کی مکمل مدد کرے گا۔ ذرائع نے امید ظاہرکی ہے کہ پاکستان بھی اپنی طرف سے اسی طرح کے تعاون کی پیش کش کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں باضابطہ درخواست کی جا سکتی ہے کہ بھارتی تفتیشی ٹیم کو پاکستان جا کر انکوائری کرنے کی اجازت دی جائے۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا،’’بیشتر شواہد پاکستان میں ہی موجود ہیں، اب تک ہمارے پاس زیادہ تفصیلات نہیں ہیں، ہمیں امید ہے کہ پاکستان اپنی تفتیش کی تفصیلات سے ہمیں آگاہ کرے گا۔‘‘
اس دوران اپوزیشن کانگریس نے پاکستانی تفتیشی ٹیم کی آمد پر سوالات اٹھائے ہیں۔ کانگریس کے سابق ممبر پارلیمان سندیپ دکشت نے کہا،’’ ٹیم بھارت آ رہی ہے یہ ٹھیک ہے لیکن عوام کو اس انکوائری کے دور رس نتائج کے بارے میں بھی بتایا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ نریندر مودی حکومت پاکستان کے سامنے گھٹنے ٹیک رہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ممبئی میں سن 1993 کے سلسلہ وار بم دھماکوں کے ملزم داؤد ابراہیم سے متعلق تفتیش کے لیے ہماری ٹیم کو بھی پاکستان جانے کی اجازت ملے گی؟
دریں اثنا یہاں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی تفتیشی ٹیم کے دورہ سے پٹھان کوٹ دہشت گردانہ حملے کا معاملہ حل کرنے میں خواہ مدد ملے یا نہیں لیکن اس سے31 مارچ کو واشنگٹن میں وزیر اعظم مودی کو اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے ملاقات کے لیے ماحول تیار کرنے اور اپنے عوام کوکسی قدر مطمئن کرنے میں مدد ضرور ملے گی۔