پٹھان کوٹ واقعہ: پاکستان میں ’جیشِ محمد‘ کے خلاف کریک ڈاؤن
13 جنوری 2016پیر کو وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت پٹھان کوٹ پر حملے سے متعلق بھارت سے ملنے والی معلومات اور ان کی روشنی میں اب تک تحقیقات میں ہونے والی پیشرفت سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا۔ وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں کہا گہا ہے کہ اجلاس میں پٹھان کوٹ حملے سے جڑے عناصر کے خلاف ہونے والی قابل ذکر پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
اس اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ،وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز ،برّی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی لفٹیننٹ جنرل رضوان اختر، کور کمانڈر لاہور، ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو اور دیگر اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے شرکت کی۔
اس بیان کے مطابق ’پاکستان میں کی گئی ابتدائی تحقیقات اور مہیا کی گئی معلومات کے تحت جیشں محمد کےمتعدد کارکنوں کو گرفتار کرنے کے علاوہ جیش محمد کے ملک میں موجود دفاتر کو ڈھونڈ کر ان پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور کئی دفاتر کو سیل بند کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں مزید تحقیقات جاری ہیں‘۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعاون کی سوچ کے ساتھ تحقیقات کو آ گے بڑھانے کے لیے اضافی معلومات درکار ہیں اور اس سلسلے میں حکومت پاکستان بھارتی حکومت کی مشاورت کے ساتھ ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم پٹھان کوٹ بھجوانے پر غور کر رہی ہے۔ اس اجلاس میں اس بات کا اعادہ بھی کیا گیا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پاکستان بھارت کے ساتھ رابطے میں رہے گا۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں اس اجلاس کے انعقاد کا مقصد بھارت کو اس بات کی یقین دہانی کرانا ہے کہ پاکستان نے نئی دہلی کی طرف سے پٹھان کوٹ حملے سے متعلق مہیا کی گئی معلومات کو سنجیدگی سے لیا ہے۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان پندرہ جنوری کو ہونے والے مذکرات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے یا نہیں، اس بارے میں ابھی اندازہ کرنا مشکل ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’اگر آپ بھارت کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو پتہ چل جائے گا کہ وہ دو طرفہ مذاکرات کو کسی بھی وقت ملتوی کرنے کا یکطرفہ اعلان کر سکتا ہے تو اس لیے میرے خیال میں پاکستان کی طرف سے پٹھان کوٹ حملے کے بارے میں جتنا مرضی تعاون کر لیا جائے، یہ معاملہ بھارت کی نیت پر ہی ہو گا کہ وہ بات چیت جاری رکھتا ہے یا نہیں۔‘‘
انہوں نے کہاکہ اگر پندرہ جنوری کو مذاکرات ہو جاتے ہیں تو یہ دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک بہتر سمت میں لے جانے کے لیے مدد گار ثابت ہوں گے۔
پاک بھارت تعلقات پر نظر رکھنے والے پاکستان کے ڈان میڈیا گروپ سے وابستہ صحافی افتخار شیرازی کا کہنا ہے:’’ابھی تک جو بھی اقدامات بھی پاکستان نے کیے ہیں، شاید بھارت اس سے زیادہ کی توقع کر رہا ہے اور وہ صرف جیش محمد کے کارکنوں کی گرفتاریوں یا دفاتر کو سیل کرنے سے مطمئن نہ ہو۔ دیکھتے ہیں کہ ان اقدامات کا بھارت کی طرف سے کس طرح کا جواب دیا جاتا ہے۔‘‘
خیال رہے کہ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ گزشتہ روز کہہ چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان مجوزہ مذاکرات ہوں گے یا نہیں، اس کا فیصلہ مناسب وقت پر کیا جائے گا۔
دریں اثناء پاکستانی ذرائع ابلاغ پر مختلف ذرائع کے حوالے سے ایسی خبریں بھی نشر کی جا رہی ہیں، جن کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کالعدم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر اور ان کے بھائی رؤف اظہر کو اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ ان اطلاعات کی سرکاری طور پر تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔