پچاسویں میونخ سکیورٹی کانفرنس کا آغاز
31 جنوری 2014عالمی سلامتی امور پر فوکس کرنے والی تین روزہ میونخ سکیورٹی کانفرنس میں کئی علاقائی اور بین الاقوامی تنازعات اورعالمی امور کو زیر بحث لایا جائے گا۔ ان میں اسرائیل اور فلسطینی انتظامیہ کے درمیان جاری مذاکرات، ایران کے ساتھ طے پانے والی جوہری ڈیل اور رواں برس کے اختتام پر بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کے مستقبل کا موضوع شامل ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ شام کے مسلح تنازعے پر بھی تین سو سے زائد شرکاء اظہار خیال کریں گے۔
کانفرنس کے دوران خارجہ پالیسیوں کے ساتھ ساتھ عالمی دفاعی معاملات کو مذاکرات میں شامل کیے جانے کا امکان ہے۔
میونخ سکیورٹی کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کے ساتھ شام کے لیے خصوصی بین الاقوامی مندوب لخضر براہیمی، امریکی وزیر خارجہ جان کیری، امریکی وزیر دفاع چَک ہیگل، روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سمیت کم از کم دیگر ستر ملکوں کے وزرائے خارجہ بھی شریک ہوں گے۔ بعض ریاستوں کے سربراہوں کی شرکت بھی متوقع ہے۔ کانفرنس ایک ایسے موقع پر منعقد ہو رہی جب ایک طرف شامی تنازعے کے لیے جنیوا مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب افغان صدر حامد کرزئی کے امریکا کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی میں بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
میونخ سکیورٹی کانفرنس میں شرکا مختلف تنازعات کو سامنے رکھتے ہوئے اُن کے اقوام عالم پر مرتب ہونے والے اثرات کا جہاں جائزہ لیں گے وہاں ان کے حل کے لیے ممکنہ تجاویز کے ساتھ ساتھ تعاون اور مکالمت کے عمل پر بھی غور کریں گے۔ دوسری جانب بین الاقوامی سکیورٹی کانفرنس کے انعقاد پرامن کا پرچار کرنے والی مقامی تنظیموں کی جانب سے مختلف عالمی معاملات میں بڑی طاقتوں کی سُست رو حکمت عملی کے تناظر میں مظاہروں کو بھی پلان کیا گیا ہے۔ کانفرنس کو ان مظاہرین سے محفوظ رکھنے کے لیے تین ہزار اضافی پولیس اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔
کانفرنس میں موجودہ ڈیجیٹل دور میں مختلف اقوام کے قومی ڈیٹا بیس کی تشکیل اور شراکت کے حوالے سے ایک خصوصی بحث بھی طے ہے۔ اسی ڈیٹا کولیکشن پر جرمنی اور امریکا کے درمیان تنازعہ جنم لے چکا ہے۔ اس تنازعے کی وجہ امریکی سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے اہم افراد کی جاسوسی کا عمل تھا اور امریکی ادارے نے تو جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے موبائل ٹیلی فون کی جاسوسی سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ اس مناسبت سے خیال کیا گیا ہے کہ آج جمعے کے روز جرمن چانسلر انگیلا میرکل امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے جرمن دارالحکومت برلن میں ملاقات کے دوران اس معاملے پر بھی اپنی حکومتی تشویش ظاہر کرسکتی ہیں۔ میرکل اِس مناسبت سے کہہ چکی ہیں کہ اس جاسوسی کی وجہ سے بداعتمادی کی فضا پیدا ہونے کے علاوہ اعتماد شکنی ہوئی ہے۔
آج سے شروع ہونے والی سکیورٹی کانفرنس میں خاص طور پر سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر اور سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ شمٹ کی شرکت کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ پچاس برس قبل ان دونوں شخصیات نے پہلی میونخ سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ وہ گزشتہ نصف صدی پر پھیلی کانفرنس کی سرگرمیوں کا احاطہ کرنے کے علاوہ کانفرنس کے سرگرمیوں کا جائزہ بھی لیں گے۔ کانفرنس میں یورپی یونین کے اہم شخصیات کے ساتھ اسرائیلی وزیر دفاع موشے یالون اور ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف کی شرکت کو بھی اہمیت حاصل ہے۔
میونخ سکیورٹی کانفرنس کا اہتمام اسی نام کی فاؤنڈیشن کرتی ہے۔ گولڈن جوبلی کانفرنس کے موقع پر منتظمین کی جانب سے ایک کتاب بھی شائع کی گئی ہے۔ کتاب کا عنوان ہے: باہمی سلامتی کی جانب میونخ کانفرنس کے پچاس برس۔ کتاب میں کئی اہم موضوعات پر مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ میونخ سکیورٹی کانفرنس سن 1962 میں پہلی بار منعقد کی گئی تھی۔