پچاسی سالہ فرانسیسی یہودی خاتون کا قتل، وجہ سامیت دشمنی
27 مارچ 2018
فرانسیسی پولیس نے ہولوکاسٹ کے دوران زندہ بچ جانے والی پچاسی سالہ میریئے نو کو قتل کرنے کے جرم میں دو افراد پر فرد جرم عائد کر دی ہے۔ تفتیش کاروں کے مطابق میریئے نو کے قتل کا محرک سامیت دشمنی تھا۔
اشتہار
دوسری عالمی جنگ کے دوران پیرس میں یہودیوں کی نسل کشی یا ہولوکاسٹ کے دوران زندہ بچ نکلنے والی میریئے نو کو گزشتہ ہفتے ان کے اپارٹمنٹ میں خنجروں کا وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا اور بعد ازاں ان کی لاش کو آگ لگا دی گئی تھی۔
فرانسیسی تفتیش کاروں کے مطابق انہیں قتل کیے جانے کا محرک یہودیوں سے نفرت تھا اور انہیں قتل کرنے کے جرم میں دو افراد کو گرفتار کر کے فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
فرانس، انسداد دہشت گردی کے نئے قوانین میں نیا کیا ہے؟
فرانس سکیورٹی کو یقینی بنانے کی خاطر نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں، جن کے تحت انسداد دہشت گردی کے لیے بھی کئی شقیں شامل ہیں۔ آخر ان ضوابط میں ہے کیا؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں ان کے اہم حصوں پر۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Tribouillard
نقل وحرکت پر پابندیاں
نئے قانون کے مطابق ایسے مشتبہ افراد، جن پر دہشت گرد تنظیموں سے روابط کا شبہ ہو گا، وہ اس شہر سے باہر نہیں جا سکیں گے، جہاں ان کی رجسٹریشن ہوئی ہو گی۔ انہیں روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ تھانے میں پیش بھی ہونا پڑے گا۔ ایسے افراد کے کچھ مخصوص مقامات پر جانے پر پابندی بھی عائد کی جا سکے گی۔ یہ اقدامات صرف انسداد دہشت گردی کے لیے ہوں گے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
گھروں کی تلاشی
نئے قوانین کے تحت متعلقہ حکام انسداد دہشت گردی کی خاطر کسی بھی مشتبہ شخص کے گھر کی تلاشی لینے کے مجاز ہوں گے۔ عام ہنگامی صورتحال کے دوران پولیس کو ایسے چھاپوں کی خاطر عدالت سے اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Edme
اہم مقامات پر مشتبہ افراد کی تلاشی
اس نئے قانون کے تحت سکیورٹی فورسزکو اجازت ہوگی کہ وہ ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کے دس کلو میٹر کے رداس میں موجود لوگوں سے شناختی دستاویزات طلب کر سکیں۔ اس اقدام کا مقصد سرحد پار جرائم کی شرح کو کم کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lecocq
عبادت گاہوں کی بندش
اس قانون کے تحت ریاست کو اجازت ہو گی کہ وہ کسی بھی ایسی عبادت گاہ کو بند کر دے، جہاں انتہا پسندانہ نظریات یا پروپیگنڈا کو فروغ دیا جا رہا ہو۔ ان عبادت گاہوں میں نفرت انگیزی اور امتیازی سلوک کی ترویج کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔ ساتھ ہی تشدد پھیلانے کی کوشش اور دہشت گردی کی معاونت کے شبے میں عبادت گاہوں کو بند بھی کیا جا سکے گا۔
تصویر: picture-alliance/Godong/Robert Harding
ایونٹس کے دوران سخت سکیورٹی
اس نئے قانون کے تحت سکیورٹی فورسز کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ ایسے مقامات کے گرد و نواح میں واقع عمارات کی چیکنگ کی خاطر وہاں چھاپے مار سکیں اور مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کر سکیں، جہاں نزدیک ہی کوئی عوامی ایونٹ منعقد کرایا جا رہا ہو گا۔ اس کا مقصد زیادہ رش والے مقامات پر ممکنہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی روک تھام کو ممکن بنانا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Samson
5 تصاویر1 | 5
یہودی مذہب کے ماننے والے فرانسیسی شہریوں کی آبادی یورپ میں سب سے زیادہ ہے اور وہ حالیہ برسوں کے دوران فرانس میں سامیت دشمنی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر پہلے ہی سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں۔
اس مقدمے میں اب تک
- جمعہ تئیس مارچ کے روز فائربریگیڈ کا عملہ آگ لگنے کی اطلاع ملنے کے بعد پیرس میں واقع میریئے نو کے اپارٹمنٹ پہنچا جہاں انہیں اس پچاسی سالہ یہودی خاتون کی لاش ملی۔
- پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتا چلا کہ آگ لگائے جانے سے قبل میریئے نو کو خنجر کے کئی وار کر کے قتل کیا گیا تھا۔
- پولیس نے اس سلسلے میں دو افراد کو گرفتار کیا۔ عدالتی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ قتل کیے جانے کی بظاہر وجہ ’مقتولہ کا مذہب‘ تھا۔
- دونوں مجرموں پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے انہیں مقدمہ شروع ہونے سے قبل حراست میں لے لیا گیا ہے۔
- پولیس ذرائع کے مطابق دونوں مشتبہ ملزم مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں اور وہ پہلے بھی ریپ اور پرتشدد ڈکیتیوں میں ملوث رہے ہیں۔
- اے ایف پی کے مطابق ان مشتبہ قاتلوں کی عمریں بیس اور تیس برس کے درمیان ہیں۔
فرانسیسی یہودیوں کا احتجاج
فرانس میں مقیم یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی تنظیم نے ملک گیر مظاہروں کا اعلان کرتے ہوئے پیرس حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس مقدمے کی تفتیش میں ’مکمل شفافیت‘ اختیار کی جائے۔ میریئے نو کی یاد میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد بدھ اٹھائیس مارچ کو کیا جائے گا۔
دوسری جانب فرانسی صدر ایمانوئل ماکروں نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں ’میریئے نو کے بھیانک قتل پر تعزیت‘ کرتے ہوئے ملک سے 'سامیت دشمنی کے خاتمے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم‘ کا اعلان کیا ہے۔
سات عشرے قبل یعنی اپریل 1943ء میں وارسا کے یہودیوں نے نازی فوج کا چار ہفتے تک ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا
تصویر: ddp images/AP Photo
مقبوضہ آبادی کی تلاشی
وارسا پر قابض سابق نازی جرمن فوج کی خفیہ سروس کے مسلح عہدیدار مقامی آبادی کی تلاشی لیتے ہوئے، 19 اپریل کو یہاں کے یہودیوں نے بغاوت کا آغاز کر دیا تھا
تصویر: Getty Images
یہودی بستی پر قبضہ
نازی جرمنی نے 1939ء کے وسط میں پولینڈ پر قبضہ کیا تھا، پولینڈ کے دارالحکومت میں اس وقت قریب ساڑھے تین لاکھ یہودی بستے تھے، جو کسی بھی یورپی شہر میں یہودیوں کی سب سے بڑی تعداد تھی
تصویر: picture-alliance/dpa
معمولات زندگی میں یکسر تبدیلی
یہ سڑک دکھاتی ہے کہ مقبوضہ یہودی بستی ’گیٹو‘ میں معمولات زندگی کس قدر پرسکون تھے، اکتوبر 1940ء میں شہر کی یہودی آبادی کو ہر جگہ سے بے دخل کرکے ایک علاقے میں مقید کر دیا گیا تھا اور ان کے اردگرد تین میٹر اونچی دیوار تعمیر کر دی گئی تھی
تصویر: picture-alliance/dpa
مقبوضہ یہودی علاقوں کو ملانے والا پل
اس تصویر میں مقبوضہ یہودی علاقوں کو ملانے والا پل دیکھا جاسکتا ہے جس کے ذریعے دیگر علاقوں تک رسائی ناممکن تھی، یہاں کے لوگوں سے کھیتوں،کارخانوں یا فوج میں جبری محنت کروائی جاتی تھی
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن قوانین کا نفاذ
مقبوضہ یہودی بستی کے اندر جرمن انتظامی فورس Ordnungsdienst کے عہدیدار انتظامی امور چلاتے تھے۔ بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے یہاں کے یہودیوں کو Judenrat سے رابطہ کرنا پڑتا تھا جو جرمن قوانین کے نفاذ کو یقینی بناتے تھے
تصویر: picture-alliance/akg-images
ناگفتہ حالات زندگی
وارسا کے مقبوضہ یہودی علاقے میں حالات زندگی ویسے ہی ناگفتہ تھے۔ ایسے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سابق نازی فوج نے دیگر مقبوضہ علاقوں سے بھی یہودیوں کو یہاں لانا شروع کر دیا اور یہاں کی آبادی ایک وقت میں چار لاکھ تک پہنچ گئی تھی
تصویر: picture-alliance/dpa
سخت حالات میں مزاحمتی گروہوں کی تشکیل
مقبوضہ یہودی بستی ’گیٹو‘ کے اندر بچوں، خواتین اور بیمار افراد کی حالت دن بہ دن ابتر ہوتی رہی، اگرچہ یہاں کھانے پینے اور ادویات کی شدید قلت تھی تاہم پھر بھی یہودی مزاحمتی گروہ تشکیل پائے
تصویر: picture-alliance/dpa
گیٹو سے قتل گاہوں میں منتقلی
وارسا کے ’گیٹو‘ سے یہودیوں کی ’extermination camps‘ یعنی قتل گاہوں کو منتقلی شروع ہوئی، زیادہ تر لوگوں کو ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر قائم Treblinka کیمپ منتقل کیا گیا، نازی فوج کے انتظامی افسر اور Judenrat کے سربراہ ,Adam Czerniakow نے اس عمل کے دوران بطور احتجاج خودکشی کرلی تھی
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Austrian Archives
جرمن فوج پر فائرنگ
اپریل 1942 میں وارسا گیٹو کو بڑی حد تک خالی کر دیا گیا تھا اور بچ جانے والے یہودی رہائشیوں کو اذیتی مراکز میں منتقل کر دیا گیا تھا جس کے معنی موت کے تھے۔ جب خفیہ فوج SS کے عہدیدار 19 اپریل کو کیمپ میں داخل ہوئی تو یہودی مزاحمت کاروں نے ان پر فائرنگ کی
تصویر: Keystone/Getty Images
بستی کے گھر نذر آتش
جنرل یورگن سٹروپ (بائیں جانب سے تیسرے) کی قیادت میں نازی جرمن فوج SS کو چار ہفتے تک یہودی مزاحمت کاروں کے حملوں کا سامنا رہا، سابقہ نازی فوج نے اپنا کنٹرول یقینی بنانے کے لیے ’گیٹو‘ کے اندر ایک ایک کرکے تمام عمارتوں کو نذر آتش کر دیا
تصویر: picture-alliance/Judaica-Sammlung Richter
مزاحمت دم توڑ گئی
مئی کی 16 تاریخ کو مزاحمت دم توڑ گئی، وارسا کے ’گیٹو‘ میں قریب دس لاکھ لوگوں کو قابض رکھا گیا تھا اور رپورٹوں کے مطابق ان میں سے کچھ ہزار ہی زندہ بچے
تصویر: picture-alliance/dpa
یہودیوں کا نام ونشان مٹانے کی کوشش
وارسا میں یہودیوں کا نام ونشان مٹانے کی غرض سے سابق نازی فوج نے یہاں یہودیوں کی عبادت گاہ کو بھی نذر آتش کر دیا تھا۔ نازی فوج SS کی رپورٹ کے مطابق وارسا میں یہودیوں کی تعداد 56065 تھی۔
تصویر: ullstein bild - Photo12
کچھ ہی لوگ بچ سکے
مزاحمت کو پسپا کر دیا گیا اور ’گیٹو‘ سے لگ بھگ 56 ہزار لوگوں کو بے دخل کر دیا گیا، ان بچ جانے والے افراد کو جبری مشقتی کیمپوں میں بھیج دیا گیا اور محض کچھ ہی کو بعد میں بچایا گیا
تصویر: picture-alliance/AP Images
مظالم کی معافی مانگ لی گئی
سابق جرمن چانسلر ولی برانڈ کی یہ تصویر 1970ء میں دنیا بھر نے دیکھی جب انہوں نے وارسا کے دورے کے وقت ’گیٹو کے ہیروز کی یادگار‘ پر بطور احترام و عقیدت گھٹنے ٹیکے۔، دنیا نے اسے دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمن فوج کی جانب سے کیے گئے مظالم کی معافی سے تعبیر کیا