پچاس کروڑ سال پرانی آبی مخلوق کے حیران کن فوسلز کی دریافت
28 جون 2024
سائنس دانوں نے پچاس کروڑ سال پرانی اور اب ناپید ہو چکی ایک سمندری مخلوق کی حیران کن حد تک اچھی حالت میں محفوظ جسمانی باقیات تلاش کر لی ہیں۔ ماہرین کے بقول ان فوسلز کی حالت ایسی ہے کہ جیسے یہ جاندار ابھی کل تک زندہ تھا۔
ٹریلوبائٹس، زمین کے سمندروں میں یہ قدیمی آبی مخلوق پانچ سو ملین سال پہلے بہت زیادہ تعداد میں پائی جاتی تھیتصویر: Alan Gishlick
اشتہار
برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق قدرتی طور پر ''انتہائی شاندار اور ناقابل یقین حد تک اچھی حالت میں محفوظ‘‘ یہ قدیمی جسمانی باقیات جن جانوروں کی ہیں، وہ ٹریلوبائٹس (trilobites) کہلاتے تھے اور ان کی کئی انواع اور ضمنی انواع ہوتی تھیں۔
محققین کے مطابق اس قسم کے جانور زمین کے سمندروں میں تقریباﹰ 50 کروڑ (500 ملین) سال پہلے بہت بڑی تعداد میں زندہ تھے۔ پھر حیاتیاتی ارتقا اور تغیر کے عمل کے دوران وہ ناپید ہو گئے اور اب اس بات کو بھی کروڑوں برس گزر چکے ہیں۔
تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ سائنس دانوں کو اب ٹریلوبائٹ نسل کے جن آبی جانداروں کے فوسلز ملے ہیں، وہ ایسی حالت میں ہیں کہ لگتا ہے کہ جیسے یہ جاندار شاید ابھی کل تک زندہ تھے۔
قدیمی سمندری جانداروں کے گروپ ٹریلوبائٹس کے ایک قسم آکاڈوپیراڈوکسیڈیس برای ایریئس کے فوسلزتصویر: Paolo Gallo/Zoonar/picture alliance
ٹریلوبائٹس کی معدومیت کی وجہ کیا بنی؟
برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم نیچرل ہسٹری میوزیم کے ناپید ہو چکی قدیمی حیاتیات کے ماہر ڈاکٹر گریگ ایج کومب کے مطابق کروڑوں برس پہلے ٹریلوبائٹس کا وجود اس وجہ سے ختم ہو گیا تھا کہ وہ ایک بہت بڑے آتش فشانی دھماکے کے نتیجے میں پھیلنے ہونے والی راکھ میں پوری طرح دب گئے تھے۔
لیکن اس وجہ سے ان جانداروں کی جسمانی بافتیں اور دیگر اعضا قدرتی طور پر مگر اتنی اچھی طرح محفوظ ہو گئے کہ یہ امر سائنسی محققین کو انتہائی حیران کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر گریگ ایج کومب نے بتایا، ''میں نے تقریباﹰ 40 برس تک ٹریلوبائٹس کا سائنسی تحقیقی مطالعہ کیا ہے، لیکن مجھے آج سے پہلے کبھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ جیسے میں کسی زندہ ٹریلوبائٹ کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔‘‘
جرمنی میں آثار قدیمہ کی تیرہ نایاب دریافتیں
برلن میں آثار قدیمہ کی ایک نمائش میں یورپ میں ارتقاء کے عمل میں اہم کردار ادا کرنے والے کئی نایاب قدیمی نمونے رکھے گئے ہیں۔ ان میں سے تیرہ ایسے آثار قدیمہ شرکاء کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، جو جرمنی ہی میں دریافت ہوئے۔
تصویر: Urgeschichtliches Museum Blaubeuren/J. Wiedmann
’تصوراتی‘ آسمان
یہ سکہ آثار قدیمہ کی تاریخ میں ایک اہم دریافت قرار دیا جاتا ہے۔ اس سکے پر آسمان کی ایک تصویر کندہ ہے۔ کائناتی مظہر کی یہ تصوراتی نقش نگاری آسمانی رازوں کی قدیم ترین تصویر کشی ہے۔ دھات کا یہ سکہ صوبے سیکسنی میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران 1999 میں ملا تھا۔ اندازہ ہے کہ نیبرا نامی یہ سکہ کم از کم 36 سو سال پرانا ہے۔ اس پرنقش کائناتی مظاہر دراصل اُس وقت کے مذہبی عقائد کی دلالت کرتے ہیں۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege und Archäologie Sachsen-Anhalt/J. Lipták
قدیم ترین انسانی صورت گری
یہ قدیمی نمونہ سن 2008 میں جنوب مغربی جرمنی میں ایک غار سے دریافت کیا گیا۔ Venus of Hohle Fels نامی یہ فن پارہ انسانی صورت گری کا قدیم ترین شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔ ہاتھی دانت کی بنی قریب چھ سینٹی میٹر کی اس انسانی شبیہ کے بارے میں یقین ہے کہ یہ تب تعویز کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ یہ 40 ہزار سال پرانی ہے۔ یوں قبل از تاریخ کے عہد کا یہ نمونہ قدیم ترین معلوم انسانی صورت گری قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Urgeschichtliches Museum Blaubeuren/J. Wiedmann
دیو قامت کلاہ
برلن میں جاری Restless Times: Archaeology in Germany نامی اس نمائش میں یہ طلائی کلاہ بھی رکھا گیا ہے۔ برنجی دور میں تخلیق کی گئی سونے کی چار ٹوپیوں میں سے تین برلن کی اس نمائش میں موجود ہیں۔ انہیں ایک ہزار سال قبل کے دور کے دیوتاؤں کی علامتوں اور خصوصیات سے منسلک کیا جاتا ہے، جو تب وسطی یورپ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے انتہائی مقدس تھے۔
تصویر: Museum für Vor- und Frühgeschichte Berlin/C. Plamp
کولون کا خزانہ
جرمنی سے دریافت ہونے والے ہزاروں قدیمی نوادرات پہلی صدی عیسوی کے ہیں۔ شہر کولون سے ملنے والے یہ دیے بھی برنجی دور کے ہیں۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق رومن سلطنت نے پہلی صدی عیسوی میں کولون میں ایک نئی آبادی بسائی تھی، جو تجارتی حوالے سے انتہائی اہم ثابت ہوئی۔ سن دو ہزار سات میں اسی شہر سے رومن دور کی ایک کشتی بھی دریافت ہوئی تھی، جس کی عمر انیس سو سال بنتی ہے۔
تصویر: Römisch-Germanisches Museum der Stadt Köln; Foto: Axel Thünker, DGPh
کیلٹک شہزادی کا راز
برلن کے Gropius Bau Museum میں جاری نمائش میں یہ زیور بھی موجود ہے۔ جرمنی کے شمالی شہر ہیربرٹنگن میں سن دو ہزار دس کے اختتام پر کیلٹک شہزادی کا ایک مقبرہ دریافت ہوا تھا۔ ساتھ ہی وہاں کانسی اور سونے کے بنے زیوارات بھی ملے تھے، جن سے ان شواہد کو تقویت ملتی ہے کہ چھٹی صدی قبل از مسیح میں بھی یورپ اور دیگر خطوں کے مابین تجارت ہوتی تھی۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege Stuttgart/Y. Mühleis
قبروں میں پوشیدہ رومن آسائشیں
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر ہالٹرن میں رومن دور کا ایک مخصوص مقبرہ دریافت کیا گیا تھا۔ اس مقبرے سے ایک شخص کی جسمانی باقیات کے علاوہ ایک ایسا بیڈ بھی ملا تھا، جو اس دور میں مُردوں کے لیے مخصوص تھا۔ ماہرین کے مطابق ایسے بیڈ اٹلی سے جرمنی منتقل کیے گئے تاکہ کسی رومن شہری کی موت کے بعد بھی اس کے آرام کا خیال رکھا جا سکے۔ دریافت شدہ یہ بیڈ ایک ہزار نو سو سال پرانا ہے۔
تصویر: LWL-Archäologie für Westfalen/S. Brentführer
پتھر کے زمانے کی ’سوئس چھری‘
یہ اوزار انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ استعمال کیا گیا۔ یہ چھری یا کلہاڑی نما آلہ افریقہ میں دو ملین برس پہلے بھی پایا جاتا تھا۔ یورو ایشیائی ممالک میں البتہ اس اہم اوزار کی تاریخ چھ لاکھ برس سے زائد پرانی نہیں۔ یہ اوزار دراصل کاٹنے، مکس کرنے، مارنے یا پھینکنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ تصویر میں نظر آنے والا یہ پتھریلا اوزار 35 ہزار سال پرانا ہے۔
تصویر: Archäologisches Museum Hamburg
آگ کے طوفان پر سواری
یہ کانسی کا بنا چھوٹا سا مجسمہ ان گیارہ مجسموں میں سے ایک ہے، جو سن دو ہزار دس میں برلن میں تاریخی مقامات کی کھدائی کے دوران دریافت ہوئے تھے۔ نازی دور حکومت میں ان مجسوں کو میوزیم سے اٹھا لیا گیا تھا اور ایک ڈپو میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہونے والی بمباری کی حدت اور تباہی نے اس مجسمے کے رنگ و روغن پر بھی منفی اثرات مرتب کیے۔
تصویر: Museum für Vor- und Frühgeschichte Berlin/A. Kleuker
یورپ کا قدیم ترین میدان جنگ
سن انیس سو نوے کے اواخر میں جرمن صوبے میکلن برگ بالائی پومیرانیا میں دریائے ٹولینزے کے کناروں پر جاری آثار قدیمہ کے لیے کھدائی کے دوران ہزاروں کی تعداد میں انسانی ہڈیاں اور مختلف قسم کے ہتھیار ملے تھے۔ اس مقام کو یورپ کا قدیم ترین جنگی میدان قرار دیا جاتا ہے، جہاں ہونے والے جنگی معرکے میں دیگر خطوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی شریک ہوئے تھے۔ اس میدان جنگ سے ملنے والی اشیا 33 سو برس پرانی ہیں۔
تصویر: Landesamt für Kultur und Denkmalpflege Mecklenburg-Vorpommern
جادوئی لیبارٹری
سن دو ہزار بارہ میں جرمن شہر وِٹن برگ میں ایک مکمل لیبارٹری دریافت کی گئی تھی۔ اس قدیمی لیبارٹری میں وہ تمام اہم آلات ملے، جو تجربہ گاہوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ دریافت کے وقت اس لیبارٹری سے ملنے والے آلات اور برتن چھوٹے چھوٹے حصوں میں ٹوٹے ہوئے تھے۔ تاہم جب ماہرین نے انہیں جوڑا تو معلوم ہوا کہ یہ تو یورپ کی پہلی سائنسی تجربہ گاہ تھی۔ اندازہ ہے کہ یہ سن پندرہ سو بیس تا پندرہ سو چالیس کے دور کی ہے۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege und Archäologie Sachsen-Anhalt/J. Lipták
قدیمی سامان آرائش
جنوبی جرمن علاقے میں واقع جھیل کونسٹانس کے قریب ہی یہ قدیمی نمونہ ملا۔ اندازہ ہے کہ یہ نئے سنگی دور کا ہے۔ مٹی کے پلاسٹر پر بنائی گئی یہ تخلیق اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ انسان چار ہزار سال قبل از مسیح بھی اپنے گھروں کو مختلف طریقوں سے سجاتے تھے اور ان کے آرائش کرتے تھے۔ اس نمونے میں دراصل اس زمانے کے خداؤں اور روایات کے مطابق گھر کو محفوظ بنانے والے طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege Hemmenhofen/M. Erne
’یسوع مسیح قبر میں‘
قرون وسطیٰ میں رومن کیتھولک مقدس مقامات کی زیارتوں کے دوران ان نمونوں کو بطور بیج یا زیبائش کے لیے اپنے بدن پر سجاتے تھے۔ کچھ لوگ تو ان بیجز کی مقدس حیثیت کی وجہ سے انہیں قبروں تک بھی لے جاتے تھے۔ یہ قدیمی بیج ہاربرگ (موجودہ جرمن شہر ہیمبرگ کا ایک علاقہ) سے ملا تھا۔ اندازہ ہے کہ ایسی عبادتی علامتیں تیرہویں اور چودہویں صدی میں اس علاقے میں لائی گئی تھیں۔ اس بیج میں ’یسوع مسیح گدھے پر سوار‘ ہیں۔
تصویر: Archäologisches Museum
Hamburg
نو سو گرام چاندی
سن دو ہزار پانچ میں ایک کوہ پیما نے اپر لوساتیا میں اپنی ایک مہم کے دوران اتفاق سے چاندی کے یہ سکے ڈھونڈ نکالے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر سکے گیارہویں صدی عیسوی کے ہیں۔ تجارتی عمل کے دوران یہ چاندی کے سکے دنیا کے مختلف علاقوں سے یورپ پہنچے، حتیٰ کہ کچھ سکے تو بغداد سے سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے۔ باقاعدہ کرنسی کی ایجاد سے قبل یہی سکے خرید و فروخت کے لیے استعمال ہوتے تھے
تصویر: Landesamt für Archäologie Sachsen/U. Wohmann
13 تصاویر1 | 13
نئے ٹریلوبائٹس مراکش کے ایک پہاڑی سلسلے سے ملے
قدیمی حیاتیات کے ماہرین کو ٹریلوبائٹس کے نئے نمونے مراکش میں ہائی اٹلس نامی پہاڑی سلسلے سے ملے ہیں اور ان کی اوسط جسامت 10 ملی میٹر سے لے کر 26 ملی میٹر تک بنتی ہے۔ بہت چھوٹی سی جسامت والے ان قدیمی جانداروں کو محققین نے عرف عام میں ''پومپئی ٹریلوبائٹس‘‘ (Pompei trilobites) کا نام دیا ہے۔
انہیں یہ نام دیے جانے کا سبب یہ ہے کہ ان سمندری جانوروں کا وجود بھی تقریباﹰ اسی طرح ختم ہوا تھا، جیسے زمانہ قدیم میں پومپئی کے رہائشی تمام انسان اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب وَیسُوویئس (Vesuvius) نامی پہاڑ سے بہت زیادہ آتش فشانی ہوئی تھی۔
ان قدیمی جانداروں کی جسمانی باقیات کے کمپیوٹر اسکین سے انکشاف ہوا ہے کہ ان کے جسموں کے کئی حصے حتیٰ کہ ان میں نظام ہضم بھی اب تک بہت اچھی حالت میں محفوظ ہیں۔ اس کے علاوہ ان ٹریلوبائٹس کے جسموں کی بیرونی سطح پر بنے ہوئے قدرتی خول یا lamp shells بھی ابھی تک ان کے جسموں سے ایسی گوشت والی ڈنڈیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، جیسے وہ ان جانداروں کی زندگی میں ہوا کرتے تھے۔
انسانی ارتقا: آغاز کے نئے مضبوط ثبوت
اسرائیل میں قدیمی انسان کے فوسلز کی دریافت نے انسانی ارتقا کے بارے میں نئی معلومات فراہم کی ہیں۔ اس پکچر گیلری میں موجودہ انسان کے آبا و اجداد کے حوالے سے معلوماتی تصاویر موجود ہیں۔
تصویر: Avi Levin/AP/picture alliance
خاندان کی نئی شاخ
اسرائیل میں ایک گڑھے میں سے ایک نامعلوم قدیمی دور کے ایک انسان کا فوسل ملا ہے۔ یہ ایک لاکھ سال قبل کا ہے۔ ان حجریوں میں ایک کھوپڑی اور جبڑا ہے۔ یہ کسی ایسے شخص کا ہے جو قریب ایک لاکھ بیس ہزار سے ایک لاکھ چالیس سال قبل موجود تھا۔
تصویر: Ammar Awad/REUTERS
آدمی جیسا
انسان کی اس باقیات کا نام ’نیشر رملا ہومو ٹائپ‘ تجویز کیا گیا ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ نیشر رملا مقام سے ملنے والی باقیات قدیمی انسان کے آخری بچ جانے والے افراد کی ہیں۔ یہ یورپی نیئنڈرتھال کے قریب ترین ہیں۔ ریسرچرز کا خیال کے یہ قدیمی انسان بھارت اور چین تک کے سفر پر بھی گئے کیونکہ وہاں بھی ایسے فوسلز ملے تھے۔
تصویر: Yossi Zaidner/AP Pictures/picture alliance
نیئنڈر تھال کا پرانا امیج
پوپ کلچر میں غیر ضروری انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ پرانے دور کے حجری انسان ڈنڈے کے لیے کمر پر ڈنڈے لادے پھرتے تھے۔ یہ ایک پرانی تحقیق سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ جو سن 1908 میں دریافت ہونے والے انسانی ڈھانچے کے حوالے سے ہے۔ اس استخوان کی کمر اور گھٹنے وزن اٹھانے سے خم زدہ تھے۔ اس دریافت کی وجہ سے اکسفرڈ ڈکشنری میں ایسے انسانوں کے لیے ’پریمیٹیو‘ وغیرہ جیسے الفاظ شامل کیے گئے۔
تصویر: Federico Gambarini/dpa/picture alliance
سوچ سے زیادہ قریب
یہ ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ نیئنڈر تھال عہد کے انسان آلات بنانے کے تیز ترین طریقوں سے آشنا تھے۔ وہ جلد آگ جلانے کے ساتھ بڑے جانوروں کے شکار میں مہارت رکھتے تھے۔ نیئنڈر تھال دور کے انسان آج کے دور کی طرح بڑے جانوروں کی نسلوں کے ملاپ کا فن بھی جانتے تھے۔
تصویر: Imago/F. Jason
بیٹلز کا گیت
مشہور پوپ میوزیکل بینڈ بیٹلز کے گیت ’لوسی اِن دا سکائی وِد ڈائمنڈز‘ میں ایک نسائی ڈھانچے کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس گیت کے بعد اس استخوان یا ڈھانچے کو ’آسٹرالو پیتھیکس افارینسیس‘ کا نام دیا گیا۔ اس استخوان کو بیسویں صدی میں بہت شہرت ملی تھی کیونکہ ریسرچرز نے اسے اولین انسانی نسل سے جوڑا تھا۔ یہ ڈھانچہ سن 1978 میں ایتھوپیا میں حجری دور کے ماہر ڈونلد سی جانسن نے اپنی تحقیق کے دوران دریافت کیا تھا۔
تصویر: Jenny Vaughan/AFP/Getty Images
فلو عرف ہابٹ
ہابٹ کے استخوان کو عام طور پر ’فلو‘ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی جسامت چھوٹی تھی۔ ایسے انسان کا ایک استخوان انڈونیشی جزیرے فلوریس میں سن 2004 میں جنوبی افریقہ میں دریافت کیا گیا۔ یہ استخوان بھی ایک عورت کا تھا۔ اس کا تعلق ماہرین نے ’ہومو فلوریسیئنسیس‘ سے کیا تھا۔ یہ قریب بارہ ہزار سال پرانا انسانی ڈھانچہ ہے۔ اس استخوان کی لمبائی صرف تین فٹ سات انچ تھی۔ اس چھوٹی جسامت کی بنیاد پراسے ہابٹ قرار دیا گیا۔
تصویر: AP/STR/picture alliance
دو پایوں کا اولین ثبوت
سن 1924 میں ایک جنوبی افریقی علاقے تاؤنگ میں کام کرنے والے کان کنوں کو ایک عجیب سے کھوپڑی ملی۔ یہ انسانی جسم کے ماہر ریمنڈ ڈارٹ کو پیش کی گئی۔ انہوں نے اس پر ریسرچ کر کے بتایا کہ یہ ایک تین سالہ انسانی بچے کی ہے۔ اس کھوپڑی کا نام ’آسٹرالوپیتھیکس افریکانوس‘ رکھا گیا یہ کھوپڑی تین ملین پرانی تھی۔ اس کھوپڑی نے اس نظریے کو تقویت دی کہ انسان کا اِرتقا افریقہ میں ہوا نا کہ ایشیا اور یورپ میں۔
تصویر: imago stock&people
ڈی این اے کی از سر نو تشکیل
سن 2008 میں روسی ماہر آثار قدیمہ میشیل شنکوف نے روسی قزاقستانی سرحد کے نزدیک التائی پہاڑی سلسلے میں سے ابتدائی انسانی استخوان کا ایک نمونہ ڈھونڈ نکالا۔ اس کے ذریعے انسانی ڈی این اے کا کھوج لگایا گیا۔ اس استخوان کا نام پہاڑی سلسلے کی مناسبت سے ’ڈینسووانِس‘ رکھا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ بھی افریقہ سے مہاجرت کر کے اس علاقے میں پہنچے تھے۔ یہ نیئنڈر تھال اور ہومو سیپیئنز سے پہلے کی مہاجرت تھی۔
تصویر: Maayan Harel/AP/picture alliance
ہومو سیپیئنز کے نئے رشتہ دار!
سن 2015 میں جنوبی افریقہ کی رائزنگ اسٹار غاروں کے طویل سلسلے میں سے پندرہ قدیمی انسانوں کی پندرہ سو ہڈیاں دریافت ہوئی تھیں۔ خیال کیا گیا کہ یہ ہڈیاں ’ہومو نالیدی‘ انسانی گروپ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس دریافت پر ابھی تک ماہرین ایک حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر ہیں۔ ابھی تک تعین نہیں کیا جا سکا کہ یہ ابتائی انسانوں کی ہڈیاں ہیں یا انتہائی قدیمی ’ہومو ایریکٹس‘ سے تعلق رکھتی ہیں۔
پرانے انسانوں کا سراغ ان کے غاروں میں کندہ فن سے ملا ہے، کولمبیا کی چربیکیٹ نیشنل پارک میں بائیس ہزار سال پرانی غاریں دریافت کی گئیں۔ ان میں سے کچھ ایسے نکات ماہرین آثار قدیمہ کو ملے جن سے یہ ظاہر ہوا کہ انسان سب سے پہلے امریکی خطے میں بیس سے تیس ہزار سال قبل پہنچے تھے۔
تصویر: Jorge Mario Álvarez Arango
قدیم ترین غار آرٹ
سن 2021 میں آسٹریلوی اور انڈونیشی ماہرینِ آثار قدیمہ نے انڈونیشیا کے علاقے سُولاویسی میں ایسی غاریں ڈھونڈ نکالی، جن میں پرانے دور کے آرٹ کے نشانات ملے۔ ماہرین کے مطابق یہ غار آرٹ پینتالیس ہزار سال قبل تخلیق کیا گیا تھا۔ ان آرٹ میں استعمال رنگوں پر کاربن ٹیسٹ سے قدیم دور کی تاریخ معلوم ہوئی ہے۔
تصویر: Maxime Aubert/Griffith University/AFP
11 تصاویر1 | 11
سب سے زیادہ زیر مطالعہ رہنے والے بحری حیاتیاتی فوسلز
ٹریلوبائٹس کی خاص بات یہ ہے کہ قدیمی حیاتیات کے ماہرین نے آج تک جانداروں کی کسی دوسری قسم کا اتنا وسیع مطالعہ نہیں کیا، جتنا کہ ایسے بحری حیاتیاتی فوسلز کا۔ سائنسی ماہرین ٹریلوبائٹس کی گزشتہ 200 برسوں میں 20 ہزار سے زائد انواع کی شناخت کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر ایج کومب کے الفاظ میں، ''ٹریلوبائٹس کا سائنسی مطالعہ اس لیے انتہائی اہمیت کا حامل اور بیش قیمت سائنسی تحقیقی عمل ہے کہ یوں ماہرین کو ایسی بہت وسیع اور متنوع معلومات تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے، جن کی مدد سے یہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے کہ اب ناپید ہو چکی حیاتیانی انواع ماضی میں کس طرح کی ارتقائی تاریخ سے گزری تھیں۔‘‘
برطانیہ میں برسٹل یونیورسٹی کے قدیمی حیاتیات کے ماہر ہیری بیرکس کہتے ہیں، ''ان ٹریلوبائٹس کی ریسرچ اسٹڈی سے ناقابل یقین حد تک واضح تفصیلات ملی ہیں، مثلاﹰ یہ بھی کہ 500 ملین سال پہلے ایسے سمندری جاندار کس طرح کی خوراک کیسے کھاتے تھے۔‘‘
م م / ع ا (ڈی پی اے)
ہائبرڈ جانور، قدرت کا کرشمہ یا ارتقا؟
لائیگرز، ٹیگرون اور گرولر ریچھ۔ جی نہیں، یہ نقلی مخلوقات نہیں بلکہ دو مختلف حیوانی نسلوں یا اسپیشیز کے اختلاط سے جنم لینے والے جانور ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/Tiziana Fabi
جانوروں کی غیرعمومی دنیا
عموماﹰ ہائبرڈ جانور کسی خیال کے تحت بنائے جاتے ہیں، تاہم کبھی کبھی قدرتی قوتیں بھی جانوروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جاتی ہیں جہاں وہ دوسری انواع کے جانوروں سے اختلاط کرتے ہیں اور اس طرح نئے، غیر معمولی اور عجیب و غریب ’کراس برِیڈ‘ جانوروں کی پیدائش ممکن ہو جاتی ہے۔
تصویر: imago/ZUMA Press
ماحول کا اثر
ایسا ہی ایک جانور جو قدرتی طور پر دو اسپیشیز کے اختلاط سے وجود میں آیا، وہ ہے گرولر ریچھ۔ یہ جانور براؤن اور سیفد پولر ریچھ کے ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ کرہء شمالی پر برف پگھلنے کے نتیجے میں یہ پولر ریچھ جنوب کی جانب بڑھ رہے ہیں جب کہ گرم ہوتے موسم کی وجہ سے عام ریچھ شمال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان دونوں انواع کے اختلاط سے ریچھوں کی یہ نئی نسل جنم لے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Urquhart
آزاد تیراکی
سائنس دان قدرتی طور پر مختلف اسپیشیز کے اس اختلاط کو ’ارتقا میدان عمل میں‘ قرار دے رہے ہیں۔ آسٹریلوی ساحلوں پر مختلف طرح کی ’سیاہ نوک دار‘ شارک مچھلیاں ایسی ہی قدرتی کارستانی کا نتیجہ ہیں۔ یہ نئی مخلوق سرد اور گرم دونوں طرح کے پانیوں میں بقا کی صلاحیت کی حامل ہے۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE
معدومیت کے ممکنہ خطرات
یہ سب کچھ مثبت بھی نہیں ہے۔ اس قدرتی ارتقائی عمل کے نتیجے میں بعض اسپیشیز کے مکمل طور پر معدوم ہو جانے کے خطرات بھی پیدا ہو گئے ہیں، جیسے کہ قطبی ریچھوں کے لیے۔ ان کی تعداد میں کمی کی وجہ سے مستقبل میں پولر ریچھ براؤن ریچھوں سے اختلاط کر پائیں گے اور نتیجہ ان کی اپنی نوع کے خاتمے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/P. J. Richards
غیرذمہ دار برِیڈر
ہائبرڈ جانوروں میں بہت سوں کو جینیاتی مسائل کا سامنا رہتا ہے اور یہ بیماریوں سے جلد متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ بانجھ پن کے ساتھ بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک جانور نر شیر اور مادہ چیتا کے اختلاط سے پیدا ہونے والا ’لائیگر‘ ہے۔ یہ ’بہت بڑی بلی‘ پیسہ بنانے کے لیے مصنوعی طور پر تیار کی گئی، کیوں کہ قدرتی جنگلات میں اس کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Kurskov
غیرمتوقع آمد
چڑیا گھروں میں ہائبرڈ بریڈنگ کو روکا جا سکتا ہے، تاہم قدرتی طور پر ہونے والی اس بریڈنگ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ مثلاﹰ آئرلینڈ کے ایک فارم میں بھیڑ اور بکری کی نسلوں نے قدرتی طور پر آپس میں اختلاط کیا اور نتیجہ ان دونوں انواع کی خصوصیات کے حامل ایک نئی نسل کے جانور کی پیدائش کی صورت میں نکلا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Murphy
قدرت پر کس کو بس
ہر مثبت اور منفی بات سے پرے، کچھ جانور اپنے قدرتی احساس سے مجبور ہو کر سب کو حیران کر دیتے ہیں۔ سن 2013ء میں اٹلی میں ایک زیبرا خاردار تاروں سے بنی دیوار پھلانگ کر ایک گدھی تک پہنچ گیا۔ اس واقعے کے بعد ’زونکی‘ پیدا ہوا، جو ’زیبرا‘ اور ’ڈونکی‘ کے ملاپ کا نتیجہ تھا۔