جرمنی کی معمر ترین کتب فروش ایک پچانوے سالہ خاتون ہیلگا وائیے ہیں، جو ابھی بھی ریٹائر نہیں ہونا چاہتیں۔انہوں نے اپنے پسندیدہ بک سٹور پر کام کرنا اس وقت شروع کیا تھا جب دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر ابھی اقتدار میں تھا۔
اشتہار
جرمنی کے ایک چھوٹے سے شہر زالس ویڈل سے اتوار اٹھائیس جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں ہیلگا وائیے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ بزرگ جرمن خاتون اپنی عمر کی ایک صدی پوری کرنے سے پانچ برس سے بھی کم کے فاصلے پر ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ آیا وہ اپنی عملی زندگی سے ریٹائر بھی ہونا چاہتی ہیں۔
ہیلگا وائیے کے بارے میں بہت دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خاتون گزشتہ سات دہائیوں سے بھی زائد عرصے سے کتب فروشی کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ وہ بلاشبہ جرمنی کی معمر ترین بک سیلر ہیں اور اگر آپ ان کے بک سٹور میں جائیں تو وہ کتابوں سے متعلق آپ کے ہر سوال کا جواب دیں گی۔
لیکن اگر آپ ان سے یہ پوچھیں کہ قریب تین چوتھائی صدی تک کتب فروشی کرنے کے بعد کیا وہ ریٹائر نہیں ہونا چاہتیں، تو صرف یہی وہ واحد سوال ہے جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
ہیلگا اس عمر میں بھی ہر ہفتے چھ دن اپنے بک سٹور پر کام کرتی ہیں بلکہ اسے چلاتی ہیں۔ ان کے کئی گاہک ایسے بھی ہیں، جو بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ ہیلگا کے بک سٹور پر آیا کرتے تھے اور اب خود ان کے اپنے پوتے پوتیاں بھی بالغ عمر کے شہری ہیں۔
ہیلگا وائیے نے جب اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا، تب دوسری عالمی جنگ کے دوران سوویت یونین کی ریڈ آرمی ابھی نازی جرمن دور میں متحدہ جرمنی کے مشرق میں ہیلگا کے آبائی قصبے زالس ویڈل کی طرف بڑھ رہی تھی۔
یہی نہیں تب اڈولف ہٹلر بھی جرمنی میں پوری طرح اقتدار میں تھا اور اس یورپی ریاست میں نازیوں کے اقتدار کا سورج اپنے عروج پر تھا۔ ایک اور حوالہ یہ بھی کہ جب ہیلگا نے کتب فروشی کو پیشے کے طور پر اپنایا تھا، تب فرانس میں ژاں پال سارتر کی مشہور زمانہ تصنیف ’نو ایگزٹ‘ ابھی شائع ہوئی ہی تھی۔
ہٹلر کی کتاب ’مائن کامپف‘ کے مختلف ایڈیشن
اڈولف ہٹلر کی نفرت انگیز سوانحی عمری اور سیاسی منشور ’مائن کامپف‘ یا ’میری جدوجہد‘ 2016ء سے ایک مرتبہ پھر جرمن کتب خانوں میں فروخت کے لیے دستیاب ہو گی۔
تصویر: Arben Muka
ہٹلر کے دستخطوں کے ساتھ
نازی جرمن رہنما اڈولف ہٹلر کے دستخطوں کے ساتھ بدنام زمانہ کتاب ’میری جدوجہد‘ کا ایڈیشن اعلیٰ افسران کو دیا جاتا تھا یا پھر شادی کے تحائف کے طور پر۔ دنیا بھر میں تاریخی کتب جمع کرنے والے کئی ایسے افراد ہیں، جو اس ایڈیشن کی ایک کاپی کے لیے بڑی سے بڑی رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عربی ایڈیشن
’میری جدوجہد‘ کا عربی زبان میں ترجمہ 1950ء میں کیا گیا تھا۔ اس ایڈیشن کے پس ورق پر ہی سواستیکا کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/akg-images
’میری جدوجہد‘ فرانسیسی زبان میں
1939ء میں شائع ہونے والے فرانسیسی زبان کے ایڈیشن میں درج ہے کہ ’یہ کتاب ہر فرانسیسی کو پڑھنا چاہیے‘۔ یہ سفارش پہلی عالمی جنگ میں فرانسیسی وزیر جنگ کے فرائض انجام دینے والے مارشل Hubert Lyautey نے کی تھی، جو بعد میں ایک ’نوآبادیاتی منتظم‘ بھی بنے تھے۔ وہ دوسری عالمی جنگ سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔ دائیں طرف دکھائی دینے والا ایڈیشن بعد میں شائع ہوا تھا۔
تصویر: picture alliance/Gusman/Leemage /Roby le 14 février 2005.
برطانیہ میں اشاعت
دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر کی کوشش تھی کہ وہ برطانیہ پر قبضہ کر لے تاہم برطانوی افواج کے حوصلوں کے آگے یہ نازی رہنما ناکام رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ میں ماضی کے اس جرمن آمر سے بہت نفرت کی جاتی ہے، لیکن برطانیہ میں ’مائن کامپف‘ کی اشاعت پر لندن حکومت نے کبھی کوئی اعتراض نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/photoshot
’میری جدوجہد‘ سرخ رنگ میں
جنگی زمانوں کی شخصیات اور حالات و واقعات سے متعلق یادگاری اشیاء میں کسی اور ملک کے شہریوں کو اتنی زیادہ دلچسپی نہیں جتنی کہ اس حوالے سے یادگاری اشیاء جمع کرنے والے امریکیوں کو ہے۔ امریکا کے مقابلے میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو، جہاں ’مائن کامپف‘ کی طلب اتنی زیادہ ہو۔ خصوصی ایڈیشنز کی نیلامی میں وہاں ایک کاپی کی بولی 35 ہزار ڈالر سے شروع ہو سکتی ہے۔
تصویر: F. J. Brown/AFP/Getty Images
ہٹلر افغانستان میں
افغانستان میں سڑک پر لوگ ’میری جدوجہد‘ کھلے عام فروخت کرتے ہیں اور وہاں کے قوانین کے مطابق یہ عمل غیر قانونی نہیں ہے۔ وہاں نازی دور کے پراپیگنڈا پوسٹر بھی بکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سربیا میں نازی آمر کی کتاب
سربیا کے دارالحکومت میں اڈولف ہٹلر کی کتاب ’میری جدوجہد‘ 2013ء میں ایک کتاب میلے میں نمائش کے لیے رکھی گئی تھی۔ تاہم اس ایڈیشن میں تبصرے بھی شامل تھے۔
تصویر: DW/N. Velickovic
ہٹلر کتب خانوں کی کھڑکیوں میں
البانیہ کے دارالحکومت تیرانہ کی سڑکوں پر چلتے ہوئے آپ کی آنکھیں ہٹلر کی آنکھوں سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ البانیا کا دارالحکومت غالباﹰ دنیا کا ایسا واحد شہر ہے، جہاں ہٹلر کی کتاب ’مائن کامپف‘ کی جلدیں شیشے کی الماریوں میں یوں کھلے عام رکھی ہوتی ہیں کہ وہ نزدیک سے گزرنے والوں کو دیکھتی رہتی ہیں۔
تصویر: Arben Muka
8 تصاویر1 | 8
ہیلگا وائیے کے خاندان کی کتب فروشی سے محبت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ خود ہیلگا اپنے خاندان میں یہ دکان چلانے والی تیسری نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا خاندان اپنی یہ آبائی دکان 1840ء سے چلا رہا ہے۔
ہیلگا کے دادا نے اپنی اس دکان میں آج تک کتابوں کے لیے استعمال ہونے والی لکڑی کی بہت سی شلفیں 1880ء کی دہائی میں اس وقت بنوائی تھیں جب اس دور کی جرمن ریاست پر اوٹو فان بسمارک کی حکومت تھی۔
جرمن بُک پرائز جیتنے والے گیارہ نامور مصنفین
جرمن زبان میں لکھنے والے یہ 11 مصنفین جرمنی کا مؤقر ترین ادبی انعام ’دی جرمن بُک پرائز‘ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ اعزاز فرینکفرٹ کتاب میلے کے دوران جرمن ناشرین اور کتب فروشوں کی ملکی تنظیم کی طرف سے دیا جاتا ہے۔
تصویر: Fotolia/olly
فرانک وِٹسل
ان کے ناول The Invention of the Red Army Faction by a Manic-Depressive Teenager in the Summer of 1969 پر انہیں 2015ء کا جرمن بُک پرائز دیا گیا ہے۔ یہ انعام انہیں پیر 12 اکتوبر کو دیا گیا۔ ان کے ناول میں مغربی جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک 13 سالہ لڑکے کی سرد جنگ کے دور کی کہانی بیان کی گئی ہے جو گھریلو تشدد اور ماضی سے نبرد آزما ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
لُٹس زائلر
گزشتہ برس لُٹس زائلر کو ان کے ناول ’کرُوسو‘ پر بُک پرائز دیا گیا۔ 2014ء میں یہ ناول دیوار برلن کے انہدام کے تناظر میں لکھا گیا۔ اس کتاب میں آزادی کی تلاش اور سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی سے فرار کی کوششوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
ٹیریزیا مورا
مورا کی تصنیف ’دس اُنگیہوئر‘ یا ’دا مونسٹر‘ نے 2013ء کا بُک پرائز جیتا تھا۔ ٹیریزیا مورا ڈائری اور سفرنامے کی شکل میں لکھتی ہیں، جنہیں ایک گہری سیاہ لکیر سے الگ الگ رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب میں ان کی زندگی سے متعلق اور ڈپریشن کے حوالے سے طبی خاکے بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں بھی دستیاب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
اُرزُولا کریشَیل
2012ء کا بُک پرائز جیتنے والی اُرزُولا کریشَیل نے جج رچرڈ کورنِٹسر کی زندگی کو اپنے ناول ’ڈسٹرکٹ کورٹ‘ کا موضوع بنایا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ یہودی جج کیوبا سے جلاوطنی ختم کر کے جرمنی واپس لوٹا کیونکہ وہ جرمنی میں دوبارہ جج بننا چاہتا تھا۔ مصنفہ نے اپنے اس ناول کے لیے 10 برس تک تحقیق کی۔
تصویر: dapd
اوئگن رُوگے
اوئگن رُوگے کے 2011ء میں لکھے گئے ناول ’اِن ٹائمز آف فےڈِنگ لائٹ‘ کو بُک پرائز دیا گیا۔ اس کتاب میں مشرقی جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو 1950ء کی دہائی سے 1989ء میں جرمنی کے اتحاد اور نئی صدی کے آغاز تک کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Dedert
میلِنڈا ناج ابونجی
2010ء کا بُک پرائز جیتنے والی ابونجی کی کتاب ’ٹاؤبن فلِیگن آؤف‘ یا ’فلائی اوے، پیجن‘ یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد یورپ میں پیدا ہونے والے تنازعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس ناول میں ایک خاندان کی کہانی کو یوگوسلاویہ کے تنازعے اور سربیا کے صوبے ووج وَودینا میں ہنگیرین نسل سے تعلق رکھنے والی ایک اقلیت کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Eisele
کیتھرین شمِٹ
کیتھرین شمِٹ کی 2009ء میں لکھی جانے والی کتاب ’یو آر ناٹ گوئنگ ٹو ڈائی‘ جرمنی کے اتحاد کے دور سے متعلق ہے جب ایک خاتون کومہ سے بیدار ہوتی ہے اور اپنی کھوئی ہوئی یادیں اور بولنے کی صلاحیت واپس حاصل کر لیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi
اُووے ٹَیلکامپ
2008ء میں جیوری نے بُک پرائز کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے اتحاد سے قبل کے آخری سالوں سے متعلق ایک ناول ’ڈئر ٹرُم‘ یا ’دا ٹاور‘ کے مصنف کو دیا۔ یہ ناول ڈریسڈن میں رہنے والے ایک خاندان کو درپیش واقعات پر مشتمل ہے۔ اس ناول پر 2012ء میں ایک فلم بھی بن چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Elsner
جُولیا فرانک
2007ء میں بُک پرائز حاصل کرنے والے ناول کا نام Die Mittagsfrau ہے جسے انگریزی میں ’دا بلائنڈ سائیڈ آف دا ہارٹ‘ کا نام دیا گیا۔ اس ناول میں جولیا فرانک نے دو عالمی جنگوں کے دوران کے عرصے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی کہانی پیش کی ہے۔ یہ ناول 34 مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Guillem Lopez
کیتھرینا ہاکر
2006ء کا بُک پرائز جیتنے والی کیتھرینا ہاکر نے جوان لوگوں کی کہانیاں Die Habenichtse یعنی ’دا ہیو ناٹس‘ The Have-Nots میں بیان کی ہیں۔ 30 برس کے لگ بھگ عمر کے ایسے لوگوں کی کہانیاں جو اور تو بہت کچھ جانتے ہیں مگر اپنے آپ کو نہیں۔ ان لوگوں کو کیسے رہنا چاہیے، ان کی اقدار کیا ہیں اور انہیں کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے، یہ اس ناول کے بنیادی سوالات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E.Elsner
آرنو گائیگر
2005ء میں سب سے پہلا جرمن بُک پرائز آرنو گائیگر کو ان کے ناول ’اَیس گیہت اُنس گُٹ‘ یعنی ’وی آر ڈوئنگ وَیل‘ پر دیا گیا۔ اس ناول کی کہانی ویانا سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی تین نسلوں کے گرد گھومتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Elsner
11 تصاویر1 | 11
ہیلگا وائیے کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں دو طویل آمریتیں دیکھی ہیں۔ ایک نازی رہنما ہٹلر کا دور اقتدار اور دوسرا سابقہ مشرقی جرمنی میں کئی عشروں تک جاری رہنے والا کمیونسٹ دور حکومت جب شخصی آزادیاں بہت ہی محدود تھیں۔
ہیلگا کے بقول، ’’میری زندگی کتابوں کے ساتھ ہے۔ میری اپنی زندگی کا آخری باب بھی کتابوں کے ساتھ اور ان کی محبت میں ہی اپنی تکمیل کو پہنچے گا۔‘‘
جرمنی کی اس تاریخ ساز اور معمر ترین کتب فروش خاتون کا آبائی شہر زالس ویڈل برلن سے قریب 200 کلومیٹر شمال مغرب کی طرف واقع ہے اور اس شہر کی کُل آبادی محض 25 ہزار کے قریب ہے۔
بچوں کی کتابوں کا عالمی دن، دَس جرمن شاہکار
بچوں کے لیے کتابیں بے شمار ہیں، ہر عمر کے لیے اور دنیا کے ہر ملک سے آئی ہوئی لیکن ہر ماں باپ اور اپنے بچپن کو یاد کرنے والے ہر شخص کو پتہ ہوتا ہے کہ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں، جو ہر صورت میں بچوں کے کمرے میں ہونی چاہییں۔
تصویر: DW/G. Reucher
مقبول تصوراتی کردار
جرمن مصنف مشائیل اَینڈے کی شاہکار کتاب ’نہ ختم ہونے والی داستان‘ اب تک کئی ملین کی تعداد میں فروخت ہو چکی ہے اور متعدد انعامات کی حقدار ٹھہری ہے۔ یہ کتاب دنیا کی درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے اور شاید ہی کوئی جرمن بچہ ایسا ہو گا، جس کے پاس یہ کتاب نہیں ہو گی۔ یہ کہانی نو عمر لڑکے باستیان کی ہے، جو فینٹیسی لینڈ میں نت نئی مہمات سر کرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چڑیلیں، ڈاکو اور جادوگر
’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹی سی چڑیل ہوا کرتی تھی‘ اس کہانی میں اچھے اچھے کام کرنے کی خواہاں اس ننھی چڑیل کی عمر 127 سال ہے۔ یہ کردار بچوں کے لیے کتابیں تحریر کرنے والے اور ابھی 2013ء میں انتقال کر جانے والے جرمن مصنف اوٹفریڈ پروئسلر کی شاہکار کتاب ’ڈاکو ہوٹسن پلوٹس‘ کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے۔ اس میں عجیب و غریب ناموں والے کردار ہیں مثلاً ڈاکو کا نام ہے، ’پٹروسیلیوس سواکل مان‘۔
تصویر: Thienemann Verlag
چلو پانامہ چلیں
ایک ریچھ اور ایک شیر ایک گھر میں ہنسی خوشی رہتے ہیں لیکن پھر ایک دن اُنہیں ایک ڈبہ ملتا ہے، جس پر پانامہ لکھا ہوتا ہے۔ اُس کے اندر سے کیلوں کی خوشبو آ رہی ہوتی ہے اور تب وہ دونوں اپنے خوابوں کی اس سرزمین کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی کہانی ہوئی؟ لیکن غیر منطقی ہونے کے باوجود حال ہی میں اپنی پچاسی ویں سالگرہ منانے والے جرمن مصنف یانوش کے یہ عجیب و غریب کردار بچوں میں بے حد مقبول ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Weihrauch
دلچسپ و عجیب ’اُرمل‘
بچوں کے جرمن مصنف ماکس کرُوزے کی تحریروں میں تو عجیب و غریب کرداروں کا میلہ سا لگا ہوتا ہے: پروفیسر ہاباکُوک اور اُن کے اردگرد جمع عجیب الخلقت کرداروں کو ایک روز ایک بہت بڑا انڈہ ملتا ہے، جس میں سے نکلنے والے بچے کو وہ ’اُرمل‘ کا نام دیتے ہیں۔ ہر کردار کے بولنے میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہوتی ہے، کوئی تتلاتا ہے تو کسی کی آواز میں لکنت ہوتی ہے اور بچوں کو اُن کی باتیں خوب مزہ دیتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Puchner
1933ء: مہاجرین کے مصائب
1923ء میں موجودہ جرمن دارالحکومت برلن میں جنم لینے والی برطانوی مصنفہ جُوڈِتھ کَیر کی کتاب ’جب ہٹلر نے گلابی خرگوش چرا لیا‘ کو 1974ء میں بچوں کی کتابوں کے اعلیٰ ترین جرمن انعام سے نوازا گیا تھا۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ایک نو سالہ یہودی لڑکی آنا اور اُس کا کنبہ نازی سوشلسٹوں سے بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر: Ravensburger
انسان کے اندر موجود اچھائی
جرمن مصنف ایرِش کیسٹنر کی بچوں کے لیے تحریر کردہ کئی کتابیں مثلاً ’ایمل اور سراغرساں‘ یا پھر ’اُڑتا ہوا کمرہٴ جماعت‘ بچوں میں بے حد مقبول ہیں۔ ان مزاحیہ اور بصیرت افروز کتابوں کے دنیا کی ایک سو سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور کئی ایک پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ یہ مشہور جملہ بھی کیسٹنر ہی کا ہے کہ ’اچھائی کا کوئی وجود نہیں ہے، بجز اس کے کہ انسان یہ (اچھائی) کرے‘۔
’ماکس اور مورِٹس‘ دو شریر بچوں کی داستان ہے، جو لازمی طور پر ہر جرمن بچے کے بُک شیلف میں ہوتی ہے۔ پہلی بار یہ شاہکار کتاب 1865ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کردار شاعر اور مصور ولہیلم بُش نے تخلیق کیے تھے، جنہیں آج کل کی مزاحیہ کارٹون کہانیوں کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ اُن کی کتابوں کے کئی جملے آج کل کے جرمنی میں ضرب الامثال کا درجہ رکھتے ہیں۔
تصویر: Karikaturmuseum Wilhelm Busch
جب بچے شرارت سے باز نہ آئیں
جرمن مصنف ہائنرش ہوفمان کی کتاب ’شٹرووَل پیٹر‘ اور بھی پرانی ہے، یہ 1845ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ اُن کی تمام کہانیوں کا لُبّ لُباب یہی ہے کہ جب بچے شرارتوں سے باز نہیں آتے تو اُنہیں اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ اُن کے تخلیق کردہ کئی جملے بھی آج کل جرمن زبان میں محاورے بن چکے ہیں۔
تصویر: gemeinfrei
تصور اور حقیقت
جب ہر جانب برطانوی مصنفہ جے کے رالنگ کے کردار ہیری پوٹر کی دھوم تھی، تب جرمن مصنفہ کورنیلیا فُنکے کی تین جِلدوں پر مشتمل داستان ’ٹِنٹن ہَیرتس‘ کی پہلی جلد شائع ہوئی، بہت مقبول ہوئی اور فلمائی بھی گئی۔ یہ ایک بارہ سالہ لڑکی مَیگی کی کہانی ہے، جس کے پاس یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کہانیوں کی کتابیں پڑھتے ہوئے اُس میں سے تصوراتی کرداروں کو باہر نکال سکتی ہے یا حقیقی کرداروں کو کہانی کے اندر بھیج سکتی ہے۔
چہرے پر خواہشوں کے نشان
جرمن بچوں میں بہت مقبول اس کردار کا نام ہے، ’زَمس‘ اور اسے تخلیق کیا ہے، جرمن ادیب پاؤل مار نے۔ یہ ایک نوعمر کردار ہے، جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ لڑکی ہے یا لڑکا۔ ویسے دیکھنے میں وہ لڑکا زیادہ لگتا ہے۔ اُس کے چہرے پر چھوٹے چھوٹے نقطے یا ’خواہشوں کے‘ نشان ہیں۔ کوئی چھوٹی خواہش ہو تو چہرے سے ایک نقطہ غائب ہو جاتا ہے جبکہ بڑی خواہشوں کے لیے دو یا تین نقطے بھی خرچ ہو سکتے ہیں۔