بھارت میں پانچ اگست کو شروع ہونے حکومت مخالف مظاہرے ایک عام سا احتجاج تھا، جس میں اپوزیشن پارٹی نے مہنگائی اور افراط زر کے خلاف نعرے بازی کی۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے حالات کچھ بدل گئے۔
تاہم پانچ اگست کو جب راہول گاندھی حکومت مخالف ایک مظاہرے کی قیادت کر رہے تھے تو پولیس نے کچھ دیر کے لیے انہیں اور ان کے دیگر ساتھیوں کو حراست میں لے لیا۔
بعدازاں گاندھی نے اپنی گرفتاری کی کچھ تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ بھارت میں جمہوریت ایک یادداشت کی طرح ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق ان کی یہ ٹویٹ دراصل موجودہ سیاسی حالات میں ان کی بے بسی اور کچھ کر گزرنے کی خواہش کو بیان کرتی ہے۔
تاہم ناقدین کے مطابق بھارتی جمہوریت میں ایک نئی تبدیلی دیکھی جا رہی ہے، جس کے آثار کچھ اچھے نہیں ہیں۔ حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن بڑھا ہے، جس کی وجہ سے راہول گاندھی عوامی ہمددری حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
ہم پر انگلی کيوں اٹھائی؟ مودی حکومت کی طرف سے عالمی شخصیات کی مذمت
بھارتی کسانوں نے متنازعہ زرعی اصلاحات کی مخالفت ميں دو ماہ سے زائد عرصے سے نئی دہلی کے مضافات ميں دھرنا دے رکھا ہے۔ کئی عالمی شخصيات نے کسانوں کے حق ميں بيانات ديے، جنہیں مودی حکومت نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Radke
اہم شخصيات کی حمايت اور بھارت کی ناراضگی
سوشل ميڈيا پر مشہور گلوکارہ ريحانہ اور سويڈش ماحولیاتی کارکن گريٹا تھونبرگ سميت کئی اہم عالمی شخصيات نے بھارت ميں سراپا احتجاج کسانوں کی حمايت کی۔ بھارتی حکومت نے اسے اپنے اندرونی معاملات ميں ’دخل اندازی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Ivanov
اصلاحات يا کارپوريشنوں کا مفاد؟
گزشتہ برس ستمبر ميں بھارتی حکومت نے زراعت کے شعبے ميں نئے متنازعیہ قوانین وضع کیے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اقدامات بڑی بڑی کارپوريشنوں کے مفاد ميں ہيں۔ کسانوں نے دو ماہ سے زائد عرصے قبل دارالحکومت دہلی کے نواح ميں اپنا احتجاج شروع کيا۔ مگر وزيراعظم نريندر مودی ڈٹے ہوئے ہيں کہ اصلاحات کسانوں کے مفاد ميں ہيں اور انہيں واپس نہيں ليا جائے گا۔
تصویر: Manish Swarup/AP Photo/picture alliance
نيا قانون کيوں متنازعہ؟
کسانوں تنظیموں کا موقف ہے کہ نيا قانون اس بات کی گارنٹی نہيں ديتا کہ زرعی پيداوار کسی کم از کم قيمت پر بک سکے گی، جس کے باعث وہ کارپوريشنوں کے چنگل ميں پھنس جائيں گے۔ اپنے مطالبات منوانے کے ليے کسانوں نے کئی ريلياں نکاليں۔ چھبيس جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر ايک ريلی ميں ہنگامہ آرائی کے بعد سے ماحول کشيدہ ہے۔
تصویر: Danish Siddiqui/REUTERS
ريحانہ
باربيڈوس کی معروف پاپ اسٹار ريحانہ نے حال ہی ميں بھارتی کسانوں کی حمايت کا اظہار کيا۔ انہوں نے ٹوئيٹ میں کہا، ’’ہم اس بارے ميں بات کيوں نہيں کر رہے؟‘‘ عالمی سطح پر ان کی اس ٹوئيٹ کو کافی سراہا گيا مگر بھارت ميں کئی نامور ستارے اپنے ملک کے دفاع ميں بول پڑے اور ريحانہ کے خلاف کافی بيان بازی کی۔
تصویر: picture alliance/dpa/A.Cowie
گريٹا تھونبرگ
اٹھارہ سالہ ماحول دوست کارکن گريٹا تھونبرگ نے بھی ايک ٹوئيٹ ميں بھارتی کسانوں اور ان کی تحريک کی حمايت کی، جس پر حکمران بھارتی جنتا پارٹی کافی نالاں دکھائی دے رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Hitij
جسٹن ٹروڈو
کينيڈا کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو نے دسمبر ميں کسانوں کی حمايت ميں بيان ديتے ہوئے دھرنے پر تشويش ظاہر کی۔ اس پر بھارتی وزارت خارجہ نے بيان جاری کيا کہ ٹروڈو کا بيان بھارت کے اندونی معاملات ميں دخل اندازی ہے۔
تصویر: Sean Kilpatrick/The Canadian Press/ZUMAPRESS.com/picture alliance
امانڈا سرنی
انسٹاگرام اسٹار امانڈا سرنی نے اپنے اکاؤنٹ پر تين بھارتی خواتين کی تصوير شيئر کی، جس پر لکھا تھا کہ ’دنيا ديکھ رہی ہے۔ آپ کا يہ مسئلہ سمجھنے کے ليے بھارتی، پنجابی يا جنوبی ايشيائی ہونا ضروری نہيں۔ صرف انسانيت کے ليے فکر ضروری ہے۔ ہميشہ آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت، سب کے ليے بنيادی شہری حقوق اور ملازمين کے احترام کا مطالبہ کريں۔‘
تصویر: Scott Roth/Invision/AP/picture alliance
مينا ہيرس
امريکی نائب صدر کملا ہيرس کی بھانجی اور وکيل مينا ہيرس نے بھی ٹوئيٹ کی کہ ’ہم سب کو بھارت ميں انٹرنيٹ کی بندش اور کسانوں کے خلاف نيم فوجی دستوں کے تشدد پر برہم ہونا چاہيے۔‘
تصویر: DNCC/Getty Images
جم کوسٹا
امريکی ڈيموکريٹ سياستدان جم کوسٹا نے بھی بھارت ميں کسانوں کی تحريک کی حمايت کی ہے۔ انہوں نے وہاں جاری حالات و واقعات کو پريشان کن قرار ديا۔ خارجہ امور سے متعلق کميٹی کے رکن کوسٹا نے کہا کہ کسانوں کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے اور اس کا احترام لازمی ہے۔
تصویر: Michael Brochstein/ZUMA Wire/picture alliance
روپی کور
چوٹی کی نظميں لکھنے والی بلاگر روپی کور نے ريحانہ کی جانب سے اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کی تعريف کی اور خود بھی کسانوں کی حمايت ميں بيان ديا کہ بھارت ميں زراعت کا شعبہ مشکلات کا شکار ہے۔ گزشتہ دو برسوں ميں وہاں کئی کسان خود کشياں کر چکے ہيں۔
تصویر: Chris Young/The Canadian Press/AP Images/picture alliance
جان کيوسک
امريکی اداکار اور رضاکار جان کيوسک بھی اس سال جنوری سے بھارتی کسانوں کی تحريک کی حمايت ميں بيان ديتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
11 تصاویر1 | 11
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالات میں ایسی تبدیلی آئی ہے کہ اگر راہول درست طریقے سے اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں تو لوگ ان کے ساتھ مل سکتے ہیں۔
حالات بدل گئے، ارون دھتی رائے
جہاں عوام حکومت کی سیاسی عدم برداشت سے نالاں ہیں، وہیں ان کا عدلیہ پر اعتماد بھی کچھ کم ہوا ہے۔ وہ سمجھنے لگے ہیں کہ اب عدلیہ حکومتی مشنری پر چیک رکھنے میں ناکام ہوتی جا رہی ہے۔ پریس پر حملے اور آزادی رائے کے اظہار پر پابندیاں بھی بھارتی شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔
بکر پرائز حاصل کرنے والی بھارتی ادیبہ اور دانشور ارون دھتی رائے کے بقول آزادی ملنے کے بعد بھارت نے دیگر سابق نوآبادتی ممالک کے مقابلے میں بہت اچھے طریقے سے ترقی کی۔
تاہم انہوں نے کہا کہ آزادی کے پچھتر برس مکمل ہونے پر ان کا دل کچھ خوش نہیں۔ انہوں نے مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بھارتی جمہوریت بیمار ہو چکی ہے۔
صحافی اور لکھاری کومی کپور نے اے پی سے گفتگو میں کہا کہ مودی کی حکومت میں میڈیا کی آزادی سکڑ کر رہ گئی ہے۔
'دی ایمرجنسی اے پرسنل ہسٹری‘ کی خالق کومی نے مزید کہا کہ جمہوری حالات دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وہ ناامید نہیں ہوئی ہیں، ''ابھی سب کچھ ہی ہاتھ سے نہیں نکلا‘‘۔
کومی نے رجعت پسندی کا لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب یہی ادارہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری طاقت کو بدنامی سے بچا سکتا ہے، ''اگر عدلیہ کی آزادی ختم ہوئی تو مجھے ڈر ہے کہ پھر کچھ نہیں بچے گا۔‘‘
بھارتی خاتون صحافی رعنا ایوب نے خاموش رہنے سے انکار کردیا