’پڑوسی ملکوں کے ہندوؤں کو شہریت دی جائے گی‘ امیت شاہ
13 اگست 2018’دراندازی‘ کے متعلق بی جے پی کے ملکی صدر امیت شاہ کے اس بیان کو آئندہ عام انتخابات میں پارٹی کے سب سے اہم انتخابی موضوع کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ دوسری طرف ان کے بیان کی مخالفت بھی شروع ہوگئی ہے۔
امیت شاہ نے اترپردیش کے میرٹھ شہر میں پارٹی کی مجلس عاملہ کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ہندو، سکھ، پارسی، جین، بودھ اور کسی دیگر فرقہ کے ایسے افراد جو ہمارے پڑوسی ملکوں یعنی بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان میں رہ رہے ہیں اور وہاں کسی طرح کی زیادتی کا شکار ہیں تو انہیں بھارت کی شہریت دی جائے گی کیوں کہ یہ ممالک اکھنڈ(اٹوٹ) بھارت کا حصہ تھے۔‘‘
بی جے پی کے ملکی صدر نے شہریت دینے کے طریقہ کار کی تشریح کرتے ہوئے کہا، ’’ان ملکوں سے آنے والے ہندوؤں کو پہلے پناہ گزین کی حیثیت دی جائے گی اور اس کے بعد بھارت کی شہریت دے دی جائے گی اور دراندازوں کو ملک سے نکال باہر کیا جائے گا۔‘‘
خیال رہے کہ بی جے پی کے رہنما آسام کے ان مسلمانوں کو درانداز قرار دے رہے ہیں جن کے نام شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کے مسودہ میں شامل نہیں ہیں۔ بی جے پی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ مسلمان بنگلہ دیشی شہری ہیں۔
امیت شاہ کے بقول، ’’ملک کے ہر شہری کو یہ جاننے کا حق ہے کہ کون بھارت کا شہری ہے اورکون درانداز ہے۔ وفاقی حکومت نے آسام میں ایسے چار ملین سے زیادہ لوگوں کی نشاندہی کی ہے اور انہیں ملک سے نکال دیا جائےگا۔ ہم بنگلہ دیش کے دراندازوں کو آسام یا اپنے ملک میں کسی بھی جگہ رہنے نہیں دیں گے لیکن ہندو شرنارتھیوں (پناہ گزینوں) کا بھرپور احترام کیا جائے گا۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت کے صدر کا یہ بیان وزیر اعظم نریندر مودی کے اس موقف سے یکسر مختلف ہے جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز ایک خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو میں کیا ہے ۔ وزیر اعظم مودی سے جب پوچھا گیا کہ آسام میں جن چار ملین افراد کا نام این آر سی میں نہیں آیا ہے ان کا کیا ہوگا تو ان کا کہنا تھا ’’میں عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ بھارت کے کسی بھی شہری کو ملک نہیں چھوڑنا پڑے گا۔ جو مناسب طریقہ کار ہے اس کے مطابق ہر شخص کو پورا پورا موقع دیا جائے گا ۔ اگر کوئی شخص اس معاملے کو سیاسی رنگ دے رہا ہے تو یہ انتہائی افسوس ناک ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپنی ہی پارٹی کے وزیر اعظم کے موقف کے برخلاف حکمراں جماعت کے صدر نے یہ بیان دراصل آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کو مد نظر رکھ کر دیا ہے۔کیوں کہ بی جے پی نے اقتدار میں آنے سے قبل جتنے وعدے کیے تھے اور وزیر اعظم نے عوام کی خوشحالی اور بے روزگاری نیز بدعنوانی اور ملک کی سلامتی کے حوالے سے جو دعوے کیے تھے، عوام اب بھی ان کے پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایسے میں پارٹی کو عوام کو لبھانے کے لیے کوئی نیا موضوع چاہیے۔
بی جے پی کی گزشتہ مجلس عاملہ کی میٹنگ میں اس کے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی نے بھی یہ شکایت کی تھی کہ ان کے پاس ایسا کوئی موضوع نہیں ہے، جس کی بنیاد پر پر آئندہ عام انتخابات میں عوامی حمایت بٹوری جا سکے۔ بی جے پی کے اترپردیش کے صوبائی صدر مہندر ناتھ پانڈے نے امیت شاہ کے بیان کے حوالے سے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’پارٹی صدر دراصل یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ مودی حکومت این آر سی کے مسئلے کو آ گے لے جائے گی اور یہ سن 2019 کے عام انتخابات کے لیے ایک بہت موثر اور کارگر موضوع ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘
بی جے پی صدر امیت شاہ کے اس بیان پر اپوزیشن کانگریس پارٹی نے ردعمل ظاہر کیا ہے۔ پارٹی کے سینیئر لیڈر اور سابق وفاقی وزیر ششی تھرور نے ایک بیان میں کہا، ’’ کچھ لوگ چار ملین افراد کو بھارت سے باہر بھیجنے کی بات کر رہے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کے بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ بنگلہ دیش نے واضح کردیا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی شخص کی ذمہ داری نہیں لے سکتا جو اس کی سر زمین پر نہیں رہتا ہے۔‘‘
اقو ام متحدہ کے سابق نائب سیکرٹری جنرل ششی تھرور نے سوال کیا، ’’کیا بھارتی جمہوریت ان افراد کے جمہوری حقوق کی پامالی کو برداشت کر سکتی ہے، جو دہائیوں سے اس ملک میں رہ رہے ہیں۔ کیا بھارت کی خودمختاری کو بچانے کے نام پر لاکھوں لوگوں کی زندگی کو تباہ کرنا درست ہے؟‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ این آر سی کے حوالے سے مودی حکومت کا فیصلہ بھارت کی جمہوریت کے مستقبل کی تصویر طے کردے گا ۔ آیا یہ اچھی ہے یا بری۔
اس دوران بی جے پی صدر کے بیان کی حمایت اور مخالفت میں سوشل میڈیا پر بھی بحث چھڑ گئی ہے۔ بنواری لال شرما @Banwariakodaنے اپنے ٹوئٹ میں لکھا، ’’شاہ (امیت) صاحب یہ فیصلہ کرنے والے کون ہیں ۔ سپریم کورٹ کی نگرانی میں این آر سی تیار ہو رہا ہے۔ آخری فیصلے کے بعد معاملہ وزارت داخلہ کے پاس جائے گا۔ پھر حسب ضابطہ کارروائی ہوگی۔ شاہ صاحب اپنے آگے نہ تو سپریم کورٹ کو کچھ سمجھتے ہیں اور نہ ہی حکومت کو۔ انہیں اپنی آواز اٹھانے اور رائے دینے کا تو حق ہے لیکن فیصلہ سنانے کا حق نہیں ہے۔ نہ ہی وہ ہندو ہیں اور اس لیے وہ ہندوؤں کی بات نہ کریں۔‘‘ خیال رہے کہ بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ کا تعلق جین مذہب سے ہے۔