پڑوسی ملک پاکستان سے محبت کی ہے!
5 اپریل 2021ان میں سے کئی ہندی رسم الخط میں بھی لکھے تھے۔ میرا ذہن اس وقت کی پرچھائیوں میں غوطے لگانے لگا، جو میں نے اپنے ہمسایہ ملک میں گزارا تھا۔ صدی کے ابتدائی پانچ برس میں اسلام آباد میں اپنی فیملی کے ساتھ رہی۔ وہ پانچ برس، جو عالمی تاریخ اور برصغیر کی سیاسی داستان کے کئی عہدساز لمحات خود میں سمیٹے ہوئے تھے۔
ویسے تو پاک و ہند، خاص طور پر شمالی ہند کی بات کریں تو ان دونوں ملکوں کے باشندوں میں سرحد کے اس پار رائج فیشن، فلم، موسیقی، کھان پان، تہذیب، ادب اور سیاست سبھی میں کمال کی دلچسپی رہتی ہے۔ اور اس پر سرحد پار جا کر، وہاں رہ کر ان کا تجربہ کرنے کو مل جائے تو پھر کیا کہنا۔ شاید اس لیے بھی کیوں کہ عام لوگوں کو ایسے مواقع کم ہی ملتے ہیں۔
پاکستان کا پہلا دیدار ہوا سن 1997 میں۔ یہ مناباؤ کھوکھرا پار ٹرین کی شروعات سے تقریباً نو برس پہلے کی بات ہے۔ ہم مناباو ریلوے اسٹیشن پر ایک ڈاکومینٹری کے لیے شوٹنگ کر رہے تھے۔ ایک زمانے میں یہاں سے ٹرین حیدرآباد سندھ تک جاتی تھی۔ اب ریلوے پٹری کا ایک حصہ اکھاڑ دیا گیا تھا عین سرحد پر۔ بارڈر کے تاروں کے اس پار سورج ڈھل رہا تھا۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ اس پار کو جاننے سمجھنے کی آرزو بےقرار کر رہی تھی۔ پتہ نہیں تھا کے یہ نایاب موقع مجھے جلد ملنے والا تھا۔
ہزار سوال ذہن و دل میں لیے مئی 2000 میں ہم دہلی سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ لاہور میں فلائٹ بدلنی تھی۔ میرا دس سال کا بیٹا سیدھا ایئرپورٹ ریسٹورنٹ کی طرف بڑھا۔ سموسوں کی ٹرے کاؤنٹر پر دیکھ کر بولا، 'ماں یہاں کے سموسے تو دہلی جیسے ہی ہیں‘۔ جی ہاں! وہیں سموسے یا 'سمبوسے‘ جو عرب سے آکر یہاں اسٹریٹ فوڈ کی شناخت بن گئے۔
تقریبا ایک سال بعد پہلی مرتبہ لاہور کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے میری آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ ایک لمحہ کو میں بھول گئی تھی کہ میں دہلی کی گلیوں میں نہیں ہوں۔ ایک سی زبان، پہناوا، لذیذ پکوانوں کا شوق، زندہ دلی ،گویا سب کچھ۔ میرے نانا حضور تقسیم ملک سے قبل لاہور سے دلی آ گئے تھے۔ گوالمنڈی میں اس حویلی کے سامنے کھڑے ہونے کا احساس، جہاں میری ماں نے بچپن گزارا تھا، بیان کروں تو کیسے؟
خیر صاحب، ان پانچ برسوں میں کیا کیا نہ ہوا۔ نو ستمبر 2001 کی دوپہر، نیویارک کے ٹوئن ٹاورز پر سنسنی خیز حملہ اسلام آباد میں ٹیلی ویژن پر لائیو۔ اس کی دہشت، دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ دسمبر 13 کو نئی دہلی میں پارلیمنٹ پر حملہ، بھارت اور پاکستان کی فوجیں سرحد پر کمربستہ، سفارت کاری ختم شد۔ اور ہم پھولوں سے سجے خوبصورت اسلام آباد میں اپنی گٹھری باندھ کر ہر دن نیا دن کے فلسفے کو جیتے رہے۔
اس سے پہلے یہ سلسلہ اور خطرناک رنگ اختیار کرتا بین الاقوامی ڈپلومیسی نے زور پکڑا اور پھر جنوری 2002 میں کٹھمنڈو میں سارک سمٹ کے دوران صدر پرویز مشرف اور وزیر اعلی اٹل بہاری واجپائی کا مشہور مصافحہ (ہینڈ شیک) اور اس کے بعد چلنے والی کبھی ٹھنڈی کبھی گرم ہندوستان پاکستان کی سیاست، کرکٹ اور ٹریک ٹو۔ خیر، یہ سب تو آپ جانتے ہیں۔ آپ جو نہیں جانتے وہ یہ کہ اس ایک ہینڈ شیک نے کتنے نئے مواقع کھول دیے تھے۔
اچانک پاکستان میں مقیم ہم ہندوستانیوں پر عائد پابندیاں، سختی اور پہرے داری میں کچھ نرمی محسوس ہونے لگی تھی۔ عام پاکستانیوں سے ملاقات اور دوستی کی راہیں کھلنے لگی تھیں۔ بازار میں جاؤ تو وہ ہمارے لہجے اور زبان سن کر اور لباس دیکھ کر پوچھ بیٹھتے کہ کیا آپ کراچی سے ہیں؟ ہمارا جواب ہوتا جی نہیں، دہلی سے۔ تو پھر کیا تھا، دل کھول کر امید سے زیادہ ڈسکاؤنٹ کے ساتھ دہلی کے بارے میں ڈھیر سارے سوال کر دیتے، چہرے پر مسکان، انتہائی خندہ پیشانی سے پیش آتے اور چائے تک پیش کرتے۔ خاطر مدارات اور مہمان نوازی کا یہ سلسلہ ایسا چلا کہ روز دوستوں کی محفلیں لگنے لگیں، جن میں ادب، موسیقی، تہذیب و تمدن سب موضوع پر گفتگو ہوتی۔ کبھی ہمارے غریب خانے پر تو کبھی ان نئے پاکستانی ہم خیال دوستوں کے دولت کدے پر۔ ہم ان کا تعارف دہلی کی چاٹ سے کرواتے تو وہ ہمیں نہاری اورحلیم کا ذائقہ چکھاتے۔
انہی دنوں ہمیں ایک معروف پاکستانی شاعر نے اپنے گھر مدعو کیا۔ ان کے والد محترم پیری اور ضعیفی کی وجہ سے زیادہ متحرک نہیں تھے اور ان کی یادداشت بھی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ کبھی کبھار اپنے ہی بیٹے کو پہچان نہیں پاتے تھے۔ باتوں ہی باتوں میں علم ہوا کہ وہ پچاس کی دہائی میں بامبے سے کراچی آئے تھے۔
ہم ان سے ملے، ہمارے دوست نے انہیں بتایا 'ابا ، یہ لوگ ہندوستان سے آئے ہیں‘۔ یہ سن کر ایسا لگا کہ ان کی بجھی آنکھوں میں چمک اور روشنی سی دوڑ گئی۔ آنکھیں پھاڑتے ہوئے میری طرف دیکھا اور بڑی شدت اور خوشی بھرے لہجے میں پوچھا' پکا کھانا بنانا جانتی ہو؟‘۔ پکا کھانا یعنی پوری، چنے، آلو، حلوہ، رایتا، پاپڑ سے سجی تھالی، جس میں پیاز اور لہسن نہیں ہوتا۔ جو ہندو تہواروں پر شمالی ہند میں پروسی جاتی ہے۔
'جی، آپ کھائیں گے؟‘۔ اگلے روز میں نے پورا 'پکا کھانا‘ ان کے لیے بنایا۔ انہوں نے بڑے ہی شوق سے کھایا مگر ہائے پیری بمشکل ایک پوری ہی کھا پائے۔ ان کی آنکھیں نم تھیں، برسوں بعد پسندیدہ ڈش کا ذائقہ لینے کے بعد چہرے پر آسودگی اور خوشی صاف جھلکنے لگی تھی۔ نہ جانے کب سے وہ اس ذائقہ کے لیے بے چین تھے۔ افسوس! چند عرصے بعد مجھے ان کے انتقال کی خبر ملی۔کیا سرحدیں ایسی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کے لیے بھی تڑپا سکتی ہیں؟ میں بھی آج تک لاہور کی گلیوں میں کھائے پائے میں ڈوبی خمیری روٹی کا وہ لذیذ ذائقہ ڈھونڈتی ہوں۔
سیکٹر ایف -6-1 کی وہ بند گلی اور سامنے والا مکان بھی یاد آتا ہے، جہاں سے عید پر سویاں اور گوشت آتے تھے۔ اور اس گلی میں بیٹے کا دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا بھی۔ وہ دوست بہت یاد آتے ہیں، جو ابنِ انشا کی کتاب بغل میں دبائے اکثر شام کی چائے پر آ جاتے تھے۔ اشعار پڑھ کر سناتے، صوفیانہ کلام اور فیض کو گاتے، سمجھاتے۔
دیوالی پر 'اوم جے جگدیش ہرے‘ کے سر میں سر ملاتے اور ہولی پر ہمارے گھر آنگن کو رنگوں سے رنگ دیتے۔ اور پھر یہ جانتے ہوئے کہ اب کہ بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں، دوستی کی قسم کھاتے۔ بھلا ہو فیس بک اور واٹس ایپ کا کہ آج کے گلوبل دور میں دوستی اور دلوں کے رشتے قربت کے محتاج نہیں اور ہمارے یہ لخت جگر آج بھی اپنی قسمیں خوب نبھا رہے ہیں۔
المختصر، سرحد کے اس پار یا اس پار، دل صرف محبت چاہتے ہیں، انسانی قدریں ایک سی ہیں، ایک بہتر زندگی کے لیے آرزو میں کوئی فرق نہیں۔ کشادہ ذہن کے تقاضے بھی وہی ہیں، تنگ نظری کی مار بھی وہی ۔
کہتے ہیں، سرحدوں کے پار سے ہمیں اپنا وجود، اپنے نظریات، اپنی حکمتِ عملی، ایک نئی روشنی میں دکھائی دیتی ہے۔ آئینے کی مانند اور ملنے جلنے اور بات چیت سے سب ممکن ہے۔ اتنے عرصے بعد بھی، جب جب یہاں پھول کھلتے ہیں، لاہور کی انوکھی بسنت بھیگی آنکھوں میں لہرا جاتی ہے۔ ظفر صہبائی کا ایک شعر ہے:
دلوں کے بیچ نہ دیوار ہے نہ سرحد ہے
دکھائی دیتے ہیں سب فاصلے نظر کے مجھے