1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پہلا سوال ہوتا ہے کہ لڑکی کی عمر کیا ہے؟

سعدیہ احمد آسٹریلیا
8 جنوری 2021

لڑکیوں کے اذہان میں بچپن سے ہی یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ جتنا مرضی پڑھ لکھ جاؤ، کامیابی وقت سے اچھی جگہ شادی کرنے میں ہی ہے۔ تعلیم مکمل کرتے ہی ہاتھ پیلے ہو جائیں تو زبردست اور اگر دوران تعلیم رشتہ ہو جائے تو کیا ہی کہنے۔

DW Urdu Blogerin Sadia Ahmed
تصویر: privat

اگر لڑکی کی عمر بڑھ جائے تو رشتہ کرنے کے سلسلے میں اس کی قدر و منزلت گھٹنے لگتی ہے۔ زیادہ تر رشتوں میں پہلا سوال بھی یہی کیا جاتا ہے کہ لڑکی کی عمر کیا ہے؟

اب شادی محض اسٹیج پر سجی ہوئی گڑیا بن کر بیٹھنے کا نام ہے۔ ایک اچھا سا فوٹو شوٹ ہو جائے، جسے بار بار سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جائے اور حسن کی داد وصول کی جائے۔ دلہن کا کم عمر اور حسین لگنا شرط اول ہے۔ پتلی کمر، تیکھے نقش اور گورا رنگ یکجان ہوں تو زمانے سے واہ واہ بٹورنے میں مزید سہولت رہے گی۔ اب اس بات سے کسی کو چنداں فرق نہیں پڑتا کہ شادی کا اصل مقصد کیا ہے۔ کیا یہ دو انسانوں کے ملاپ اور زندگی کی خوشیاں و غم ساتھ نبھانے کا نام نہیں؟

اگر شادی کا اصل مقصد محبت اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزارنا ہے تو یہ حق تو سب انسانوں کا ہے۔ پھر تو یہ وہ حق ہے، جو کسی خاص عمر اور جسمانی خدوخال کے ساتھ منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی اگر دلیل اور منطق کو مانا جائے تو ایک پچپن سال کی عورت کو زندگی کی خوشیوں کا وہی حق حاصل ہے، جو ایک پچیس سال کی لڑکی کو ہے۔ اگر ان سب باتوں میں کسی قسم کی صداقت ہے تو ہمیں کسی مطلقہ یا ادھیڑ عمر کی خواتین کی شادی سے کیا مسئلہ ہے؟ ہم نے اپنے ذہنوں میں شادی کا جو خاکہ تشکیل دے رکھا ہے، کیا زیادہ عمر والی خواتین اس پر پورا نہیں اُترتیں؟

یہ بھی پڑھیے:

پاکستان کی چار ملین سے زائد بیوگان، سماجی محرومی سے عبارت زندگی

ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اس بات سے لاکھ انکار کیا جائے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب بہت سے لوگوں نے فرسودہ اور دقیانوسی خیالات کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہمیں بہت سی ایسی شادیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں، جو ہمارے خاکے سے الگ ہیں۔ مطلقہ یا بیوہ عورتیں اپنی تمام عمر معاشرے کے لیے قربان کرنے کو تیار نہیں۔ وہ اپنی زندگی کی خوشیوں پر اپنا حق گنوانا نہیں چاہتیں۔ اسی طرح اگر کسی کی جوانی میں شادی نہیں ہو پائی تو یہ کیوں ضروری ہے کہ وہ بعد میں بھی بیاہ سے دور ہے کہ 'عمر نکل گئی'؟

غالباﹰ آپ کی نظروں سے بھی اداکارہ اور اینکر نادیہ خان کی شادی کی تصاویر گزری ہوں، جن میں ان کے بچے بھی شامل تھے۔ ان خوبصورت تصاویر پر سوشل میڈیا کو یہ فکر پڑ گئی کہ انہوں نے دوبارہ شادی کیسے کر لی؟ ان کی سابقہ شادی کے بارے میں گفتگو شروع ہو گئی۔ آخرکار ہمارے ہاں تعلیم، صحت، اور مہنگائی کے مسائل تو ہیں نہیں لہذا ہم کسی کی شادی پر ہی بات کریں گے، یہ سب سے اہم اور سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ 

خدا جانے ہم کب یہ بات سمجھیں گے کہ شادی محض اسٹیج پر کھڑے ہو کر رشتے داروں کے ساتھ مووی بنوانے کا نام نہیں بلکہ دو انسانوں کا سنگم ہے۔ زندگی کا ساتھ ہے، محبت کا حق ہے، دلوں کا ملاپ ہے۔ اور جہاں تک فدویہ کے علم میں ہے کسی مذہب یا آئین میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ اس کے لیے ایک خاص عمر اور وقت درکار ہے۔ بلکہ نکاح اور شادی میں آسانیاں پیدا کرنے کی تلقین ہے۔ کہیں اس بات کا ذکر بھی نہیں کہ اگر کسی کے ساتھ خدانخواستہ کوئی سانحہ یا غلطی ہو گئی ہو تو وہ تمام عمر اسی کو بھگتے۔

خوشی ہر انسان کا بنیادی حق ہے، جسے جس چیز میں خوشی ملے اسے حاصل کرنے دیجیے۔ یہ تو دلوں کا میل ہے اور دل کی خوشی کا ہی کھیل ہے۔ کوئی فریج میں پڑا کریم کا ڈبہ تو نہیں جو کچھ عرصے میں ایکسپائر ہو جائے گا۔ خوش رہنے یا شادی کرنے کی کوئی میعاد نہیں۔ بعض اوقات کسی کی خوشی میں خوش ہونے سے بھی خوشی ملتی ہے، وقت ملے تو اس نسخے کو ضرور آزمائیے گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں