پہلی خاتون قانون دان سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کی صدر منتخب
28 اکتوبر 2010سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سربراہی کے لئے ہونے والے الیکشن میں عاصمہ جہانگیر کے مدمقابل احمد اویس تھے، جنہیں قریب 40 ووٹوں کے فرق سے شکست ہو گئی۔
پاکستان میں اس مرتبہ کے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن اس لحاظ سے بھی غیر معمولی تھے کہ گزشتہ چار برسوں میں پہلی بار حامد خان کی قیادت والے پروفیشنل گروپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ احمد اویس کو وکلاء تحریک کے رہنما حامد خان کی سربراہی میں قائم پروفیشنل گروپ کی حمایت حاصل تھی۔
عاصمہ جہانگیر کو وکلاء تحریک کے علی احمد کرد، مینر اے ملک اور طارق محمود جیسے رہنماؤں کے علاوہ جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین ابراہیم، عابد حسن منٹو اور لطیف کھوسہ کی حمایت حاصل تھی۔ انہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق( کے علاوہ ان ججوں کی حمایت بھی حاصل تھی، جنہیں تین نومبر کے بعد جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی سفارشات کی روشنی میں اعلیٰ عدلیہ میں جج مقرر کیا گیا تھا۔
صرف سال رواں کے دوران ہی امن کے چار مختلف اعزازات حاصل کرنے والی عاصمہ جہانگیر پاکستان کے اندر اور عالمی سطح پر بھی مذہبی اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے لئے ایک طویل عرصے سے جنگ کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے استحصال کے خلاف بھی آواز اُٹھائی ہے۔ 2004 ء میں عاصمہ جہانگیر کو اقوام متحدہ کی عقیدے کی آزادی سے متعلق کمیٹی کے بارے میں اعلیٰ سطحی تفصیلات پیش کرنے کے لئے Rapporteur مقرر کیا گیا۔ اس سے قبل وہ ماورائے عدالت، فوری سماعت کے بعد اور بلا روک ٹوک سزائے موت کے فیصلوں کے بارے میں خصوصی رپورٹنگ کے لئے اقوام متحدہ کی نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں۔
عاصمہ جہانگیر نے 27 جنوری 1952 میں لاہور میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد ملک جیلانی ایک سابق سول سرونٹ تھے۔ ان کا گھرانہ ثروت مند طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ عاصمہ کے والد نے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ وہ آمریت کے سخت مخالف تھے اور اسی وجہ سے پاکستان میں آمریت کے خلاف سر گرم عمل ہونے پر انہیں کئی بار نظر بندی اور جیل کی سزائیں بھی کاٹنا پڑیں۔ خاص طور سے سقوط ڈھاکہ کے واقعے پر اُن کی شعلہ بیانی حکومت اور پاکستانی فوج کے لئے نہایت اشتعال انگیز تھی اور اس کی سزا کے طور پر انہیں زیر حراست بھی رکھا گیا۔ عاصمہ کی والدہ نے اُس وقت مخلوط کالج سے تعلیم حاصل کی تھی جس زمانے میں مسلمان گھرانوں کی لڑکیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رواج عام نہیں تھا۔ عاصمہ جہانگیر نے بچپن ہی سے فوجی آمریت کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔
عاصمہ نے Kinnaird کالج لاہور سے بی اے کیا اور 1978 میں پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں سوئٹزرلینڈ کی St. Gallen یونیورسٹی کی طرف سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا۔
عاصمہ جہانگیر نے حقوق نسواں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے لئے بھی جنگ کی اور سابق فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کے دور میں اسلامائزیشن پروگرام کے تحت حدود آرڈیننس کے نام سے اور توہین رسالت کے خلاف جو متنازعہ قوانین نافذ کئے گئے تھے، انہوں نے اُن کی سخت مخالفت کرتے ہوئے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد کامیاب تحریکیں بھی چلائیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک