جرمن چانسلر میرکل اور فرانسیسی صدر ماکروں نے فرانسیسی علاقے ریتھونز کا دورہ کیا، جہاں ٹھیک سو برس قبل پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کی خاطر ایک تاریخی معاہدہ ہوا تھا۔ ان دونوں رہنماؤں نے ایک یادگاری تقریب میں بھی شرکت کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
اشتہار
فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے چھپن کلومیٹر دور واقع کومپیئنئے کے جنگلات کو تاریخ میں ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔ گیارہ نومبر سن انیس سو اٹھارہ کے دن اسی مقام پر واقع ریتھونز میں پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کی خاطر ایک ڈیل طے کی گئی تھی۔
جرمنوں اور اتحادی فورسز نے سن 1918 میں 11ویں ماہ کی گیارہ تاریخ کو گیارہ بجے کے قریب ٹرین کی ایک بوگی میں ایک ابتدائی معاہدہ کو حتمی شکل دی تھی کہ چار سالہ عالمی جنگ کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔
اسی دن کی یاد تازہ کرنے کی خاطر جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اس مقام کا دورہ کیا اور پرانی یادوں کو تازہ کیا۔ اس موقع پر ان دونوں رہنماؤں نے علامتی طور پر دستخط کرنے کی تقریب کو دہرایا۔
پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے سو برس مکمل ہونے پر ویک اینڈ پر کئی یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جن میں 67 ممالک کے رہنما شریک ہو رہے ہیں۔
پہلی عالمی جنگ کو دنیا کی تاریخ کی بدترین جنگی مہم قرار دیا جاتا ہے۔ اس چار سالہ تنازعے میں فرانسیسی فوج کے 1.4 جبکہ دو ملین جرمن سپاہی لقمہ اجل بن گئے تھے۔ یہ جنگ سن 1914 تا سن 1918 جاری رہی۔ اس جنگ میں مجموعی طور پر چالیس ملین افراد ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ اس جنگ میں 70 ملین فوجیوں نے حصہ لیا تھا۔
اس جنگ کے خاتمے کے سو برس مکمل ہونے کی تقریبات میں شرکت کی خاطر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کینیڈین وزیرا عظم جسٹن ٹروڈو بھی فرانس کا دورہ کر رہے ہیں۔ فرانس کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اس مناسبت سے یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
لندن میں منعقد ہونے والی ایک ایسی ہی تقریب میں جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر شرکت کر رہے ہیں۔ اتوار کے دن منعقد ہونے والی اس تقریب میں ملکہ الزبتھ کے علاوہ برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے بھی شامل ہوں گی۔
پہلی عالمی جنگ کا خاموش میدانِ جنگ
بیلجیم کی عوام نے دو لاکھ یورو جمع کر کے زمین میں مدفون قلعہ نما خندقیں تلاش کی ہیں۔ یہ قلعہ بند خندقیں پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمن فوجیوں نے بنائی تھی۔ ان میں سے ایک سو ہلاک شدہ جرمن فوجیوں کی باقیات بھی ملی ہیں۔
تصویر: DW/M. Hallam
چلو! چلو پہاڑ کو کھودیں
بیلجیم کے ماہر آثارِ قدیمہ سائمن وردیغم کو اس کا یقین تھا کہ ویٹشیٹے کا مقام جرمن فوج کا مضبوط گڑھ تھا اور یہیں وہ قدیمی باقیات دقن تھیں جنہیں بعد ازاں ’پہلی عالمی جنگ کا پومپئی‘ قرار دیا گیا۔ ایک ہاؤسنگ اسکیم کی کھدائی کے دوران قدیمی قلعے کے نقوش دستیاب ہوئے اور عوامی حمایت سے مزید کھدائی کی گئی۔
تصویر: DW/M. Hallam
قدیمی اشیاء کا مرکز اور ہزاروں باقیات
کھدائی کرنے والوں کو ’ڈِگ ہِل 80 ٹیم‘ قرار دیا گیا۔ اس کے لیے عام لوگوں نے چندہ جمع کیا۔ کام کرنے والوں میں کئی بغیر کسی معاوضے کے شریک ہوئے۔ ان افراد نے توقع کے مطابق ایک بیش قیمت مقام کو تلاش کر لیا جہاں ہزاروں اوزار اور ہتھیار دستیاب ہوئے۔
تصویر: DW/M. Hallam
یہاں فوجیوں نے کھدائی سن 1914 میں کی
ویٹشیٹے کا مقام بیلجیم کے اِپرس شہر کے قریب ہے اور یہ فلانڈرز صوبے کا حصہ ہیں۔ یہ بیلجیم کے شمالی ساحلی پٹی کا اندرونی علاقہ ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اِپرس کا شہر برطانوی فوج کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ وہ انگلش چینل سے جرمن فوج کو دور رکھنا چاہتے تھے۔ اس باعث جرمن فوج کی چڑھائی کو روکنا تھا۔ ویٹشیٹے کے مقام پر جرمن فوجیوں کو روک دیا گیا اور پھر انہوں نے قلعہ نما خندقیں کھودیں۔
تصویر: DW/M. Hallam
عسکری نقطہ نظر سے اہم
اِپرس شہر پر برطانیہ کی توجہ تھی تو ویٹشیٹے کی پہاڑی جرمن فوج کی نگاہ میں اہم تھی اور اس بلند جگہ کو ’ہوہے 80 ‘ یا ’ہِل 80‘ کا نام دیا گیا۔ یہ سطح سمندر سے تقریباً اناسی میٹر بلند ہے۔ اس پہاڑی سے جرمن کمانڈر اِپرس شہر میں ہونے والی فوجی سرگرمیوں پر واضح طور پر نگاہ رکھنے کی پوزیشن میں تھے۔
تصویر: DW/M. Hallam
گولہ باری سے ویٹشیٹے تباہ ہو گیا
پہلی عالمی جنگ کے تنازعے کے دوران گولہ باری سے ویٹشیٹے کا گاؤں ملیا میٹ ہو کر رہ گیا۔ لیکن اس جگہ پر کھودی گئی خندقوں میں تب بھی فوجی سلامت رہے۔ خندقوں کا اوپری حصہ تباہ ہونے کے باوجود نچلے حصے میں موجود جرمن فوجی اپنی زندگیاں بچانے میں کامیاب رہے تھے۔
تصویر: DW/M. Hallam
فوجیوں کی باقیات اور ایک سو نعشیں
’ڈِگ ہِل 80 ٹیم‘ کو کھدائی کے دوران قطعی لاعلم تھی کہ ان قلعہ نما خندقوں میں سے کیا برآمد ہو گا۔ ان خندقوں میں فوجیوں کے زیر استعمال چمڑے کی پیٹیاں، ایک سپاہی کا ہیلمٹ ابتدا میں دستیاب ہوا۔ اندازہ لگایا گیا کہ جرمن فوجیوں کو ابتدائی ایام میں پہلی عالمی جنگ کی شدت کا احساس نہیں تھا۔ وہ اتنے متحرک بھی نہیں تھے کہ اپنے فوجیوں کی نعشیں واپس پہنچا سکیں۔ ایک سو مردہ فوجیوں کی باقیات دستیاب ہوئیں۔
تصویر: DW/M. Hallam
’خیموں میں مسلسل رہنا کوئی خوشی کی بات نہیں‘
مردہ فوجیوں کے احترام میں ڈوئچے ویلے نے اس کا فیصلہ کیا کہ ایسی تصاویر نہیں لی جائیں گی، جن میں نعشوں کی باقیات نظر آئیں۔ اس مقام کی بھرپور ریسرچ کے لیے ماہرین بشریات اور آثارقدیمہ نے خیمے لگا کر اپنے کام کو جاری رکھا۔ ایک سابقہ برطانوی فوجی اور کھدائی کے رضاکار ناتھن ہووارتھ کا کہنا ہے کہ لوگ ان باقیات کو دیکھ کر مضطرب ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Hallam
’ اوہ! یہ چھڑی تو میری ہے‘
برطانوی فوجی ناتھن ہووارتھ نے اُس واکی ٹاکی کو اپنی چھڑی قرار دیا جو بارودی اسلحے کی دستیابی پر ماہرین اور دوسرے نگران اہلکاوں کو مطلع کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس باعث کھدائی کا عمل احتیاط کے ساتھ جاری رکھا گیا۔
تصویر: DW/M. Hallam
وقت کی ریت کا تھیلا
اس کھدائی کے دوران ایک ریت کا تھیلا بھی دستیاب ہوا، جس نے تقریباً ایک صدی تک سورج کی روشنی نہیں دیکھی تھی۔ اس ریت کے تھیلے کے محفوظ رہنے پر سبھی ماہرین کو حیرت ہوئی کہ یہ رسنے والے پانی اور کیچڑ ہو جانے والی مٹی میں محفوظ کیسے رہا۔
تصویر: DW/M. Hallam
کھدائی کرنے والوں کی بہتات
ویٹشیٹے میں ’ڈِگ ہِل 80 ٹیم‘ کا کھدائی کا مشن جمعہ تیرہ جولائی کو مکمل ہوا ہے۔ ایک ہفتہ قبل ڈوئچے ویلے کے نمائندے نے بھی اس مقام کا دورہ کیا۔ نیچے کی بہت نرم زمین کی کھدائی بھی کی گئی اور اس کا مقصد مزید کسی قدیمی شے کی تلاش تھا۔
تصویر: DW/M. Hallam
’بہت کچھ دستیاب ہوا ہے‘
ویٹشیٹے کی پہاڑی کی کھدائی کی ٹیم کئی اقوام کے رضاکاروں پر مشتمل تھی۔ ان کا تعلق بیلجیم، برطانیہ اور بہت سے دوسرے ملکوں سے تھا۔ کھدائی کے دوران فٹ بال ورلڈ کپ پر بھی بحث و تمحیص جاری رہی۔ ہر کھدائی کرنے والا کچھ نہ کچھ ڈھونڈنے میں کامیاب رہا۔
تصویر: DW/M. Hallam
چند مربع کلومیٹر اور قیمتی اشیا
قلعہ نما خندقوں کی کھدائی کا علاقہ چند کلومیٹر پر محیط ہے لیکن اس رقبے میں سے کئی قیمتی اشیا دستیاب ہوئی ہیں۔ بعض کا تعلق فرانسیسی فوجیوں سے بھی ہے۔
تصویر: DW/M. Hallam
’یہ پانی مت پییں‘
فوجی پانی پینے کے لیے تھرموس یا فلاس استعمال کرتے ہیں اور اس کھدائی میں بھی ہلاک ہونے والے فوجیوں کی بند فلاسکس ملی ہیں۔ ان کے ہلانے سے ان میں پانی کی موجودگی کا احساس بھی ہوا۔ ماہرین آثارِ قدیمہ نے ان بوتلوں کے پانی فوری طور پر ضائع کر دیا۔ ان کو بہانے پر کیے گئے سوال کا جواب دیا کہ ہر فلاسک میں پانی نہیں ہے اور بعض میں سے پٹرول بھی ملا ہے۔