پہلے بھارتی وزیر اعظم کے طور پر مودی فلسطین کے دورے پر
جاوید اختر، نئی دہلی
9 فروری 2018
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جمعہ نو فروری کو اردن کے راستے فلسطین کے دورے پر روانہ ہوگئے۔ وہ کل ہفتے کو فلسطینی صدر محمود عباس سے راملہ میں ملاقات کریں گے۔ کسی بھارتی وزیر اعظم کا فلسطین کا یہ پہلا دورہ ہے۔
اشتہار
اس دورے کو کئی لحاظ سے نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی اس چار روزہ دورے کے دوران متحدہ عرب امارات اور عمان بھی جائیں گے۔ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے خلیجی اور مغربی ایشیائی ممالک کا یہ ان کاپانچواں دورہ ہے۔
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مغربی ایشیا اور بالخصوص اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے بھارتی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ چھ ماہ قبل نریندر مودی نے بھارت کے پہلے وزیر اعظم کے طور پر اسرائیل کا دورہ بھی کیا تھا اور چند ہفتے قبل ہی انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی دورہء بھارت کے دوران نئی دہلی اور ریاست گجرات میں میزبانی بھی کی تھی۔
بھارت اور اسرائیل کے تعلقات نئی بلندیوں کی جانب
اس دورے پر روانہ ہونے سے قبل وزیر اعظم مودی نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا، ’’یہ خطہ ہمارے تعلقات کے لیے کافی اہم ہے۔ اس خطے کے ممالک کے ساتھ ہمارے کثیر الجہتی تعلقات ہیں۔ اس دورے سے میں مغربی ایشیاء اور خلیجی ملکوں کے ساتھ بھارتی تعلقات میں مزید استحکام اور پیش رفت کی امید کرتا ہوں۔‘‘
اسی فیس بک پوسٹ میں نریندر مودی نے یہ بھی کہا کہا کہ وہ فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ بھی بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ مودی نے فلسطینی عوام اور فلسطینی علاقوں کی ترقی کے لیے بھارت کے عہد کا اظہار بھی کیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے میڈیا کو وزیر اعظم کی روانگی کی اطلاع دیتے ہوئے کہا، ’’مودی اردن کے دارالحکومت عمان سے ہوتے ہوئے فلسطین علاقے راملہ پہنچیں گے۔ خلیج اور مغربی ایشیاء کے ملکوں کے ساتھ ہمارے ہمہ جہت تعلقات کو مستحکم بنانے اور اپنے دور کے پڑوسیوں کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے حوالے سے یہ دورہ کافی اہم ثابت ہو گا۔‘‘
وزیر اعظم مودی نے فلسطین کے اس دورے کے لیے عمان کے ہوائی اڈے کو استعمال کرنے کی سہولت دیے جانے پر اردن کے شاہ عبداللہ دوم کا شکریہ بھی ادا کیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق نریندر مودی کے اس دورے کو دور کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
حال ہی میں دس آسیان ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت کو بھارت آسیان دوستی کی سلور جوبلی چوٹی کانفرنس میں مدعو کرنا اور بھارت میں یوم جمہوریہ کی تقاریب میں مہمان خصوصی کے طور پر ان رہنماؤں کی شرکت کے بعد اب وزیر اعظم مودی مغربی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جا رہے ہیں۔ دریں اثناء بھارت میں فلسطینی سفیر عدنان ابوالہیجا نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ بھارت فلسطینیوں کی خواہشات کی حمایت کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت خطے میں حالات کو معمول پر لانے میں اہم رول ادا کر سکتا ہے، بالخصوص اس لیے بھی کہ بھارت مسئلہ فلسطین کی تاریخ سے اچھی طرح واقف ہے۔
دوسری طرف فلسطینی صدر محمود عباس نے ایک بھارتی اخبار کو دیے گئے ایک ای میل انٹرویو میں کہا ہے، ’’ہم اس تاریخی دورے پر وزیر اعظم مودی کا استقبال کریں گے۔ یہ دورہ فلسطینی عوام اور برادر بھارتی عوام کے درمیان مضبوط تعلقات اور رشتوں کا مظہر ہے۔‘‘
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
تجزیہ کاروں کا تاہم خیال ہے کہ دراصل حالیہ دنوں میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان باہمی تعلقات میں مودی حکومت نے جس جوش و خروش کا مطالبہ کیا اور بالخصوص جس طرح دفاعی نوعیت کے معاہدے کیے ہیں، ان کے پیش نظر بھارت اپنے روایتی ساتھیوں اور اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم ملکوں کو کوئی غلط اشارہ بھی نہیں دینا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کے اس دورے سے قبل وزیر خارجہ سشما سوراج نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
اسرائیل اور بھارت کے مابین بڑھتا ہوا دفاعی تعاون
وزیر اعظم مودی کے اس دورے کو خلیجی ملکوں کے ساتھ بھارت کے اسٹریٹیجک تعلقات کے حوالے سے بھی اہم قرا ردیا جا رہا ہے۔ دراصل اس وقت نوے لاکھ سے زیادہ بھارتی شہری خلیجی ملکوں میں مقیم ہیں، جو بھارت میں سالانہ 35 ارب ڈالر کے برابر رقوم بھیجتے ہیں۔ اس سے بھارت کے غیر ملکی زرمبادلہ میں خاصا اضافہ ہوتا ہے دوسری طرف بھارت توانائی کی اپنی تمام ضروریات کا ساٹھ فیصد حصہ بھی خلیجی ریاستوں ہی کی مدد سے پورا کرتا ہے۔ بھارت اور متحدہ عرب امارت 2020ء تک اپنی باہمی تجارت کو 100بلین ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں۔
بھارتی حکومتی اہلکاروں کے مطابق وزیر اعظم مودی دبئی میں منعقد ہونے والی چھٹے ورلڈ گورنمنٹ سمٹ سے بھی خطاب کریں گے، جس میں بھارت کو مہمان خصوصی کا درجہ دیا گیا ہے۔ مودی دبئی میں ایک عظیم الشان مندر کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے ، جس کے لیے زمین متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے عطیہ کی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم مودی مسقط میں ایک شیو مندر میں درشن اور پوجا کرنے بھی جائیں گے۔
عرب اسرائیل جنگ کے پچاس برس مکمل
پچاس برس قبل عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں
تصویر: AFP/Getty Images
اسرائیلی فوج نے حملے کے بعد تیزی کے ساتھ پیش قدمی کی
پانچ جون کو اسرائیلی فوج نے مختلف محاذوں پر حملہ کر کے عرب افواج کی اگلی صفوں کا صفایا کر دیا تا کہ اُسے پیش قدمی میں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
اسرائیلی فوج نے حملے میں پہل کی تھی
عالمی برادری اور خاص طور پر امریکا اِس جنگ کا مخالف تھا اور اُس نے واضح کیا کہ جو پہلے حملہ کرے گا وہی نتائج کا ذمہ دار ہو گا مگر اسرائیلی فوجی کمانڈروں کا خیال تھا کہ حملے میں پہل کرنے کی صورت میں جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
تصویر: Keystone/ZUMA/IMAGO
مشرقی یروشلم پر بھی اسرائیل قابض ہو گیا
اسرائیلی فوج کے شیرمین ٹینک دس جون سن 1967 کو مشرقی یروشلم میں گشت کرتے دیکھے گئے تھے۔ شیرمین ٹینک امریکی ساختہ تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Guillaud
چھ روز جنگ میں اسرائیلی فوج کو فتح حاصل ہوئی
اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کا کئی علاقوں پر قبضہ، پھر اُن کا اسرائیل میں انضمام اور دنیا کے مقدس ترین مقامات کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں پیدا تنازعہ مزید شدت ہو گیا۔
تصویر: Imago/Keystone
عرب افواج کے جنگی قیدی
پچاس برس قبل اسرائیلی فوج نے حملہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا اور بے شمار فوجیوں کو جنگی قیدی بنا لیا۔
تصویر: David Rubinger/KEYSTONE/AP/picture alliance
جزیرہ نما سینائی میں اسرائیلی فوج کی کامیاب پیش قدمی
مصر کے علاقے جزیرہ نما سینائی میں مصری افواج اسرائیل کے اجانک حملے کا سامنا نہیں کر سکی۔ بے شمار فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اسرائیلی فوج نے مصری فوج کی جانب سے خلیج تیران کی ناکہ بندی کو بھی ختم کر دیا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
ہر محاذ پر عرب ممالک کو پسپائی کا سامنا رہا
غزہ پٹی پر قبضے کے بعد ہتھیار پھینک دینے والے فوجیوں کی پہلے شناخت کی گسی اور پھر اسرائیلی فوج نے چھان بین کا عمل مکمل کیا گیا۔