پہلے دیسی بم سے نئے دور کی کشمیری عسکریت پسندی تک کے تیس سال
31 جولائی 2018
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ٹھیک تین عشرے قبل ایک دیسی ساختہ بم کے پہلے دھماکے کے ساتھ شروع ہونے والی کشمیریوں کی عسکریت پسندی بھارتی حکمرانی کے خلاف اب مسلح مزاحمت کے ایک بالکل مختلف اور ’نئے دور‘ میں بدل چکی ہے۔
اشتہار
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سری نگر سے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے منگل اکتیس جولائی کے روز اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کا موجودہ عہد 31 جولائی 1988ء میں ایک ایسے بم کے دھماکے کے ساتھ شروع ہوا تھا، جو عسکریت پسندوں نے خود ہی بنایا تھا۔ لیکن گزشتہ تین عشروں کے دوران یہ مزاحمت آج جو شکل اختیار کر چکی ہے، وہ اپنے ابتدائی خد و خال سے قطعی مختلف ہے۔
آج کشمیر میں جو عسکریت پسند پاکستان اور بھارت کے درمیان اس متنازعہ اور منقسم خطے میں اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ کشمیر پر بھارتی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کے ایک ’نئے دور‘ کی علامت بن چکے ہیں۔
پہلی چنگاری
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ آج کے دور کے کشمیری عسکریت پسندوں کے پاس وہ بندوقیں اور رائفلیں بھی ہیں، جن سے وہ حملے کرتے ہیں، وہ اپنی جنگ سوشل میڈیا پر بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان میں پائی جانے والی تلخی اپنی نئی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ ٹھیک تین عشرے قبل 1988ء میں جولائی کی آخری تاریخ کو سری نگر کے ٹیلیگراف آفس میں دیسی ساخت کے ایک بم کا جو پہلا دھماکا کیا گیا تھا، اس سے کوئی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تھا۔ لیکن یہی دھماکا وہ پہلی چنگاری تھا، جو اب اس خونریز تنازعے کو ایک وسیع تر آگ میں بدل چکی ہے اور جس میں انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کے مطابق پچھلے تیس برسوں میں کم از کم بھی 70 ہزار انسان مارے جا چکے ہیں۔
سری نگر میں تیس برس پہلے کیے گئے اولین بم دھماکے کے ذمے دار عسکریت پسند اپنی اس کارروائی کے لیے مقامی باشندوں کی حمایت پر حیران رہ گئے تھے۔ تب سے بھارت کو اپنے زیر انتظام کشمیر میں حالات کو قابو میں رکھنے کی مسلسل کوششوں کا سامنا ہے۔ یہ عسکری کوششیں آج تک جاری تو ہیں لیکن انہیں کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازعہ تقریباﹰ اسی وقت شروع ہو گیا تھا، جب 1947ء میں برطانیہ سے آزادی کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کی یہ دونوں خود مختار ریاستیں وجود میں آئی تھیں۔ اسی وجہ سے آج دو ہمسایہ لیکن حریف ایٹمی طاقتوں کے طور پر پاکستان اور بھارت ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔
پانچ لاکھ بھارتی سکیورٹی اہلکار
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ کشمیر آج بھی دنیا کے سب سے زیادہ فوجی موجودگی والے خطوں میں شمار ہوتا ہے۔ دریں اثناء بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی دہلی کے پانچ لاکھ سے زائد دستے متعین ہیں اور وہ بھی کشمیری عسکریت پسندوں کے خلاف سوشل میڈیا پر اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں نوجوان مرد ایسے ہیں، جو مختلف زیر زمین علیحدگی پسند گروپوں میں شمولیت کے بعد فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر اے کے 47 رائفلوں کے ساتھ لی گئی اپنی تصویریں پوسٹ کرتے ہیں۔ یہ وہ کشمیری جنگجو ہیں، جو اپنی ان تصویروں سے کشمیر میں نوجوانوں کی نئی نسل کو متاثر کرنا چاہتے ہیں اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہوئے انہیں اپنی صفوں میں شامل کرنے کے خواہش مند ہیں۔
کشمیری عوام کس کے ساتھ؟
کشمیر میں ان کشمیری عسکریت پسندوں اور وہاں تعینات لاکھوں بھارتی سکیورٹی دستوں میں سے مقامی باشندے آج کس کی حمایت کرتے ہیں، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر میں کسی جگہ پر جب بھارتی دستے عسکریت پسندوں کے گروپ کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں، تو مقامی باشندے ان راستوں کو بند کر دیتے ہیں، جہاں سے ہو کر سکیورٹی فورسز ان علیحدگی پسندوں تک پہنچ سکتی ہوں۔
ان حالات میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے اہلکار ان کشمیری شہریوں کو بھی گرفتار کر لیتے ہیں، جو سوشل میڈیا پر عسکریت پسندوں کے حق میں کوئی بات کرتے ہیں یا کوئی کومنٹ لکھتے ہیں۔
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہدیٰ، جنہوں نے فوج میں اپنی ملازمت کے دوران دو عشروں سے زائد کا وقت بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزارا، کہتے ہیں کہ نئی دہلی کو کشمیر میں جس عوامی غصے کا سامنا ہے، وہی دراصل حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ’’کشمیر میں عسکریت پسندی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، جتنا بڑا مسئلہ شہریوں کی ہلاکتیں اور سکیورٹی فورسز کا عام شہریوں سے تصادم ہیں۔ سوشل میڈیا پر اطراف کے ایک دوسرے کے خلاف موقف زیادہ سے زیادہ سخت ہوتے جا رہے ہیں اور دونوں انتہاؤں کے درمیان کی سوچ کم پڑتی جا رہی ہے۔‘‘
’بھارت کے لیے صورت حال ماضی سے کہیں مشکل تر‘
کشمیر ہی میں علیحدگی پسندی کے خلاف بھارتی کوششوں میں طویل عرصے تک مرکزی کردار ادا کرنے والے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، ’’اس وقت کشمیر میں علیحدگی پسندی کی تحریک بھارت کے لیے ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ مشکل ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
اسی طرح ایک کشمیری بزنس میں نے کہا، ’’لگتا ہے کہ ہم 2018ء میں واپس 1990 کی دہائی کی طرف جا رہے ہیں، لیکن ماضی سے کہیں بری حالت میں۔ جو کچھ ہم نے کشمیر میں ہوتے دیکھا ہے اور ابھی تک دیکھ رہے ہیں، وہ ایک ایسا نقطہ ہے جہاں سے واپسی اب ممکن نظر نہیں آتی۔‘‘
م م / ع ا / اے ایف پی
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔