پہلے روس اور امریکا اپنے جوہری ہتھیار کم کریں، چین
5 جنوری 2022
جوہری تصادم سے بچنے کے عالمی طاقتوں کے مشترکہ وعدے کے ایک دن بعد، بیجنگ نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اپنے ہتھیاروں کو ''جدید'' بنا رہا ہے۔ تاہم امریکا کے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ تیزی سے انہیں وسعت دے رہا ہے۔
اشتہار
چین نے کہا کہ اس کے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کی ''جدید کاری'' کا عمل جاری ہے، تاہم اس نے دلیل پیش کی کہ ایسا صرف اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ وہ اپنے قومی دفاع کے لیے اپنی کم سے کم ضروریات کو پورا کر سکے۔
چینی وزارت خارجہ میں ہتھیاروں کے کنٹرول کے شعبے کے ڈائریکٹر جنرل فو کانگ نے کہا، ''چین نے ہمیشہ سے جوہری ہتھیار پہلے نہ استعمال کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے، اور ہم اپنی قومی سلامتی کے لیے اپنی جوہری صلاحیتوں کو کم سے کم ضروری سطح پر برقرار رکھتے ہیں۔ ' '
انہوں نے امریکا کے ان الزامات کی بھی تردید کی کہ چین اپنے جوہری ہتھیاروں کو بہت تیزی سے وسعت دے رہا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے نومبر میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ چین سن 2027 تک 700 اور 2030 تک ممکنہ طور پر ایک ہزار جوہری وار ہیڈز رکھنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
ایک روز قبل ہی دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں امریکا، چین، روس، برطانیہ اور فرانس نے ایک مشترکہ بیان میں جوہری تنازعے سے بچنے اور دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا تھا۔ لیکن اس کے دوسرے روز ہی چین نے یہ بیان جاری کیا ہے۔
اشتہار
ذمہ داری امریکا اور روس پر ہے
فو کانگ نے کہا کہ بیجنگ ''اعتماد اور حفاظت کے مسائل کے تحت اپنے جوہری ہتھیاروں کی تجدید کاری عمل جاری رکھے گا۔'' انہوں نے امریکا اور روس پر زور دیا کہ دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقت کے طور پر دونوں کو تخفیف اسلحہ کی جانب پہلا قدم اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے بیجنگ میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا، ''روئے زمین پر تمام جوہری ہتھیاروں کے 90 فیصد ہتھیار اب بھی امریکا اور روس کے پاس ہیں۔ اور انہیں اپنے جوہری ہتھیاروں کو ناقابل واپسی اور قانونی طور پر پابند طریقوں سے کم کرنا چاہیے۔''
فو کانگ نے اس موقع پر آبنائے تائیوان کے آس پاس جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی کے خدشات سے متعلق قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کیا۔ انہوں نے کہا، ''جوہری ہتھیار حتمی طور پر ایک تدارک ہیں، یہ جنگ یا لڑائی کے لیے نہیں ہیں۔''
چین کے ساتھ موجودہ کشیدگی کیا ہے؟
چین گزشتہ کئی برسوں سے اپنی فوج کو تیزی سے جدید بنا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خطے میں علاقائی تنازعات کے حوالے سے بھی خود اعتمادی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ دیگر مسائل کے علاوہ، بیجنگ نے تائیوان پر یہ کہتے ہوئے کہ اپنی بیان بازی تیز کر دی ہے کہ وہ اس کا اپنا علاقہ ہے اور وہ اس جزیرے کو اپنے قبضے میں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اس کے لیے طاقت کا بھی استعمال کر سکتا ہے۔
چینی ہتھیاروں کی حدود سے متعلق امریکی اور عالمی خدشات میں اضافہ گزشتہ برس اس وقت ہونا شروع ہوا جب چین کی مسلح افواج نے اعلان کیا کہ انہوں نے ایک ایسا میزائل تیار کر لیا ہے جو آواز کی رفتار سے بھی پانچ گنا زیادہ تیزی سے پرواز کر سکتا ہے۔
ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق واشنگٹن کا بیجنگ کے ساتھ اس طرز کا کوئی بھی مذاکراتی نظام یا مکالمہ نہیں ہے، جیسا کہ سرد جنگ کے بعد سے ماسکو کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔
جوہری ہتھیاروں کا استعمال اب تک صرف ایک تنازعے میں ہوا ہے، جب 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر امریکا نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پراٹیم بم گرائے تھے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔