پیدائش جرمن پارلیمان کے تہہ خانے میں اور ملاقات 75 سال بعد
8 ستمبر 2019
جرمنی اور دوسری عالمی جنگ کے حقائق میں سے ’رائش ٹاگ بےبیز‘ ایسی حقیقت ہیں، جن سے آج بہت سے جرمن بھی واقف نہیں ہیں۔ ’رائش ٹاگ بےبیز‘سے مراد وہ بچے ہیں، جو تین چوتھائی صدی قبل جرمن پارلیمان کے تہہ خانے میں پیدا ہوئے تھے۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن میں قائم وفاقی پارلیمان کی عمارت 'رائش ٹاگ‘ کہلاتی ہے۔ یہی عمارت وفاقی جمہوریہ جرمنی کے 'بنڈس ٹاگ‘ کہلانے والے پارلیمانی ایوان زیریں کا 'گھر‘ بھی ہے۔ کئی سال تک جاری رہنے والی دوسری عالمی جنگ کے دوران اس عمارت کو شدید نقصان پہنچا تھا اور یہ کافی حد تک تباہ ہو جانے کے علاوہ جل بھی گئی تھی۔
تاریخی طور پر اس عمارت کو اس لیے 'رائش ٹاگ‘ کہا جاتا ہے کہ وہاں ماضی کی جرمن ریاست (ایمپائر) کے منتخب عوامی نمائندے پارلیمانی اجلاس میں حصہ لیا کرتے تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے آخر مہینوں میں، جب برلن اتحادی ممالک کی فضائی بمباری سے کافی حد تک تباہ ہو چکا تھا، اس پارلیمانی عمارت کے تہہ خانے میں ایک ایسا عبوری لیکن 'محفوظ‘ میٹرنٹی وارڈ قائم کر دیا گیا تھا، جہاں حاملہ جرمن خواتین اپنے بچوں کو جنم دے سکتی تھیں۔ طبی اور انتظامی حوالے سے اس زچہ بچہ وارڈ کا تعلق قریب ہی واقع برلن کے مشہور زمانہ 'شاریٹی‘ ہسپتال سے تھا۔ اسی لیے تین چوتھائی صدی قبل وہاں جنم لینے والے جرمن شہریوں کو 'رائش ٹاگ بےبیز‘ (Reichstag Babies) کہا جاتا ہے۔
جنگ کے بعد رائش ٹاگ کی عمارت کی مرمت اور تزئین و آرائش کی گئی تھی اور آج یہی عمارت متحدہ جرمنی میں 'وفاقی جمہوری نظام کی علامت‘ ہے۔
اس عمارت کے تہہ خانے میں 1940ء کی دہائی کے وسط میں بہت سے جرمن بچے پیدا ہوئے تھے، جن میں سے زیادہ تر اب تک اپنی اپنی زندگیاں گزار کر انتقال بھی کر چکے ہیں۔
پارلیمانی اسپیکر کی طرف سے دعوت
جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ کے موجودہ اسپیکر کا نام وولفگانگ شوئبلے ہے اور انہوں نے حال ہی میں 75 سال پہلے پیدا ہونے والے ان 'بچوں‘ کو دعوت دی تھی کہ وہ اسی پارلیمانی عمارت میں جمع ہو کر ایک دوسرے سے ملیں۔
آج اتوار آٹھ ستمبر کو برلن میں رائش ٹاگ کی اس عمارت میں ہونے والی 'آپس کی ملاقات‘ کے لیے ایسے پندرہ 'بچوں‘ نے اپنی شرکت کی تصدیق کر دی ہے۔ آج ان 'بچوں‘ میں سے چند ہفتوں یا مہینوں کے فرق سے ہر کسی کی عمر 75 برس ہے۔
زچہ بچہ کی طبی دیکھ بھال اور شبینہ حفاظت
رائش ٹاگ کی طرف سے اس عمارت کے اسی تاریخی پہلو کے حوالے سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''دستیاب لیکن نامکمل تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ اس پارلیمانی عمارت کے تہہ خانے کو عبوری میٹرنٹی وارڈ کے طور پر کب سے کب تک استعمال کیا جاتا رہا تھا۔ تاہم یہ بات مصدقہ ہے کہ 'شاریٹی‘ ہسپتال نے اس عمارت کے تہہ خانے میں ایک عبوری زچہ بچہ مرکز کھول رکھا تھا۔ یہاں خاص طور پر ان خواتین کی طبی دیکھ بھال کی جاتی تھی، جو اپنے بچوں کو جنم دینے کے بالکل قریب ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ اسی وارڈ کو نومولود بچوں اور ان کی ماؤں کے لیے خاص طور پر رات کے وقت ایک محفوظ زیر زمین طبی پناہ گاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔‘‘
م م / ش ح / ڈی پی اے
برلن کا رائش ٹاگ، جمہوریت کا گھر
جرمن دارالحکومت برلن میں واقع تاریخی عمارت رائش ٹاگ کی گنبد نما چھت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ عمارت جرمن تاریخ کی کئی میٹھی اور تلخ یادیں ساتھ لیے ہوئے ہے، نازی دور حکومت سے لے کر جرمنی کے اتحاد تک۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Spata
رائش ٹاگ کا لان
رائش ٹاگ کا لان منتخب ارکان پارلیمان کو پرسکون انداز میں غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سن انیس سو ننانوے سے یہ عمارت جرمن بنڈس ٹاگ یعنی جرمن پارلیمان کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
شیشے کا گنبد
رائش ٹاگ کا منفرد گنبد مشہور آرکیٹیکٹ سر نورمان فوسٹر کی تخلیق ہے۔ برلن آنے والے سیاحوں کے لیے یہ مقام انتہائی مقبول ہے۔ اس گنبد کی اونچائی چالیس میٹر (130فٹ) ہے، جہاں سے برلن کا شاندار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس گنبد سے پارلیمان کا پلینری ہال بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کا اجازت ہے کہ وہ قانون سازوں کو مانیٹر بھی کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
پارلیمان کی شاندار عمارت
رائش ٹاگ کی تاریخی عمارت سن 1894 سے دریائے سپری کے کنارے کھڑی ہے۔ آرکیٹیکٹ پال والوٹ نے جرمن پارلیمان کے لیے پہلی عمارت تخلیق کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ تب جرمنی میں بادشاہت کا دور تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
جمہوریت ۔۔۔ بالکونی سے
نو نومبر سن انیس سو اٹھارہ کو جب جرمنی میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان فیلپ شائڈے من نے جرمنی کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا۔ اس عمارت کے بائیں طرف واقع یہ بالکونی اسی یاد گار وقت کی ایک علامت قرار دی جاتی ہے، یعنی جمہوریت کے آغاز کی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/M. Weber
رائش ٹاگ میں آتشزدگی
ستائیس فروری سن انیس سو تینیتس میں یہ عمارت آتشزدگی سے شدید متاثر ہوئی۔ اس وقت کے چانسلر اڈولف ہٹلر نے اس واقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جرمنی میں آمریت نافذ کر دی۔ کیمونسٹ سیاستدان میرینوس فان ڈیر لوبے Marinus van der Lubbe کو اس سلسلے میں مجرم قرار دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مقتول سیاستدانوں کی یادگار
رائش ٹاگ کی عمارت کے باہر ہی لوہے کی سلیں ایک منفرد انداز میں نصب ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس آرٹ کے نمونے کی ہر سل پر ان اراکین پارلیمان کے نام درج ہیں، جو سن 1933 تا سن 1945 نازی دور حکومت میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/H. Hattendorf
روسی فوجیوں کی گرافٹی
رائش ٹاگ نہ صرف جرمنی میں نازی دور حکومت کے آغاز کی کہانی اپنے ساتھ لیے ہوئے بلکہ اس کے خاتمے کی نشانیاں بھی اس عمارت میں نمایاں ہیں۔ روسی افواج نے دو مئی سن 1945 میں کو برلن پر قبضہ کرتے ہوئے اس عمارت پر سرخ رنگ کا پرچم لہرایا تھا۔ روسی فوج کی یہ کامیابی دوسری عالمی جنگ کے اختتام کا باعث بھی بنی۔ تب روسی فوجیوں نے اس عمارت کی دیوراوں پر دستخط کیے اور پیغامات بھی لکھے، جو آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
برلن کی تقسیم
دوسری عالمی جنگ کے دوران رائش ٹاگ کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ سن 1948 میں برلن کے میئر ایرنسٹ روئٹر نے لوگوں کے ایک ہجوم کے سامنے اسی متاثرہ عمارت کے سامنے ایک یادگار تقریر کی تھی۔ روئٹر نے اتحادی فورسز (امریکا، برطانیہ اور فرانس) سے پرجوش مطالبہ کیا تھا کہ مغربی برلن کو سوویت یونین کے حوالے نہ کیا جائے۔ اپنے اس موقف میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
دیوار برلن کے سائے میں
جب سن 1961 میں دیوار برلن کی تعمیر ہوئی تو رائش ٹاگ کی عمارت مغربی اور مشرقی برلن کی سرحد پر تھی۔ تب اس عمارت کے شمال میں دریائے سپری اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا۔ تب مشرقی برلن کے لوگ مبینہ طور پر اس دریا کو عبور کر کے مغربی برلن جانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس کوشش میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر سن 1970 میں رائش ٹاگ کے قریب ہی ایک خصوصی یادگار بھی بنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kunigkeit
دیوار برلن کا انہدام اور جرمنی کا اتحاد
نو نومبر سن 1989 میں دیوار برلن کا انہدام ہوا تو پارلیمان کی یہ عمارت ایک مرتبہ پھر شہر کے وسط میں شمار ہونے لگی۔ چار ماہ بعد اس دیوار کو مکمل طور پر گرا دیا گیا۔ دو اور تین اکتوبر سن 1990 کو لاکھوں جرمنوں نے رائش ٹاگ کی عمارت کے سامنے ہی جرمنی کے اتحاد کی خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin
جرمن پارلیمان کی منتقلی
رائش ٹاگ کی عمارت کو سن 1995 میں مکمل طور پر ترپالوں سے چھپا دیا گیا تھا۔ یہ آرٹ ورک کرسٹو اور جین کلاوڈ کا سب سے شاندار نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ رائش ٹاگ کی چھپی ہوئی عمارت کو دیکھنے کی خاطر لاکھوں افراد نے برلن کے اس تاریخی مقام کا رخ کیا۔ تب متحد برلن میں سب کچھ ممکن ہو چکا تھا یہاں تک اسے وفاقی جموریہ جرمنی کی پارلیمان کا درجہ ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
مستقبل کی جھلک
آرکیٹیکٹ نورمان فوسٹر اس ٹیم کے سربراہ تھے، جس نے رائش ٹاگ کی عمارت کی تعمیر نو کی۔ چار سالہ محنت کے بعد اس عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بدلے بغیر اسے نیا کر دیا گیا۔ اب یہ ایک جدید عمارت معلوم ہوتی ہے، جس کا شیشے سے بنا گنبد آرکیٹکچر کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ ستمبر 1999 میں اس عمارت کو جرمن پارلیمان بنا دیا گیا۔ سیاستدان اب اسی عمارت میں بیٹھ کر پارلیمانی طریقے سے جرمنی کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔