بنگلہ دیش میں قائم روہنگیا مسلمانون کے عارضی مہاجر کیمپوں میں کسی نوزائیدہ بچے کے رونے کی پہلی آواز، کسی شادی کا نغمہ یا کسی مہاجر کی تدفین کا شور پتا دیتا ہے کہ کوکس بازار میں زندگی غم و خوشی کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔
اشتہار
میانمار سے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے سن 1970 کے دہائی میں بنگلہ دیش مہاجرت اختیار کی تھی۔ وجہ وہی تھی جو حالیہ ہجرت کرنے والے بتاتے ہیں۔ یعنی بدھ انتہا پسندوں اور مبینہ ریاستی ظلم و ستم اور استحصال سے فرار۔
ستر کی دہائی میں بنگلہ دیش آنے والے رونگیا مہاجرین کی زندگی اب بھی ایک چھوٹے سے علاقے میں ہی گزر رہی ہے۔ یہ لوگ نہ تو قانونی طور پر کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی آزادی کے ساتھ گھوم پھر سکتے ہیں۔
روہنگیا بچوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بھی نہیں اور یہ مہاجر کمیونٹی بنیادی صحت اور حفظان صحت کی سہولیات سے بھی محروم ہے۔ لیکن کم از کم یہاں ان لوگوں کو یہ خطرہ نہیں کہ کوئی انہیں جان سے مار دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مہاجر واپس روہنگیا جانے کے بجائے بنگلہ دیش میں ابتر مہاجر کیمپوں میں سکونت پذیر ہیں۔
بیس سالہ روہنگیا مہاجر خاتون ستارہ نے اے ایف پی سے گفتگو میں اپنی خواہش بیان کرتے ہوئے کہا، ’’میری خواہش ہے کہ ایک دن میری بیٹی میانمار دیکھ سکے۔‘‘ ستارہ گزشتہ برس اپنے کبنے کے ساتھ روہنگیا سے جان بچا کر بنگلہ دیش کے کوکس بازار پہنچی تھی۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
8 تصاویر1 | 8
کچھ دن قبل ہی ستارہ کے ہاں ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی۔ ستارہ وطن واپس جانے کی شدید خواہش رکھتی ہے لیکن وہ خوفزدہ بھی ہے، ’’میں اس وقت تک میانمار واپس نہیں جاؤں گی جب تک سبھی روہنگیا واپس جانے کو تیار نہیں ہو جاتے۔‘‘
ستارہ نے دوران حمل کوکس بازار میں فعال کسی غیر سرکاری طبی ادارے سے رابطہ نہیں کیا۔ زیادہ تر روہنگیا خواتین کی طرح ستارہ نے بھی زچگی کے لیے ایک دائی کا انتخاب کیا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق کوکس بازار کے مہاجر کیمپوں میں آئندہ کچھ مہینوں کے دوران پانچ ہزار بچے پیدا ہوں گے، یعنی صرف ایک دن میں اوسطا تین سو بچوں کی پیدائش۔
ساٹھ سالہ دائی ماجونا بیگم کا کہنا ہے، ’’کبھی کبھار میرے پاس دستانے ہوتے ہیں لیکن اگر یہ نہ بھی ہوں تو میں ننگے ہاتھوں سے ہی زچگی کا عمل سرانجام دے دیتی ہوں۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ درد کشا ادویات یا اینٹی بائیوٹکس کا موجود ہونا تو دور کی بات ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر زچگی میں کوئی پیچیدگی ہو تو وہ اپنی خدمات نہیں دیتی۔ لیکن اس علاقے میں موجود دیگر کئی دائیاں اس بارے میں پریشان نہیں ہوتیں۔
کوکس بازار کے مہاجر کیمپوں میں زچگی کے دوران ہونے والی پیچدگیوں سے خواتین کی زندگی کو لاحق خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ بنیادی ادویات کی عدم دستیابی اور حفظان صحت کی عدم موجودگی کے نتیجے میں انفیکشن پھیلنے کے علاوہ ماؤں اور بچوں کی صحت سے متعلق کئی دیگر مسائل سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ اس کے باوجود روہنگیا مرد مانع حمل کے طریقوں کو اختیار نہیں کر رہے۔
فیملی پلاننگ کی ماہر شپتا اختر کے مطابق، ’’مرد مانع حمل کے طریقے اس لیے استعمال نہیں کرتے کیونکہ وہ اسے معاشرتی اور مذہبی حوالوں سے غلط سمجھتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ لیکن اب خواتین اس حوالے سے زیادہ احتیاط برت رہی ہیں اور وہ خود مانع حمل کے مختلف طریقے استعمال کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مہینوں کے دوران اب ماہانہ یہ طریقے اختیار کرنے والی خواتین کی تعداد صرف پانچ سے بڑھ کر ڈھائی سو تک پہنچ چکی ہے۔
ع ب / ش ح / اے ایف پی
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔