پیراڈائز لیکس کے نام سے قریب ساڑھے تیرہ ملین خفیہ دستاویزات منظرعام پر آ گئی ہیں، جن میں ملکہ برطانیہ سمیت متعدد اہم رہنماؤں کی بابت کہا گیا ہے کہ انہوں نے ٹیکس بچانے کے لیے بیرون ملک سرمایہ کاری کی۔
تصویر: Getty Images/C. Jackson
اشتہار
افشا ہونے والی ان دستاویزات کے مطابق امریکی وزیرمعیشت ویلبر روس کا تعلق ایک شپنگ کمپنی کے ساتھ ہے، جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے قریبی ربط رکھنے والوں کی ہے۔ ان دستاویزات میں برطانوی ملکہ الزبیتھ دوم کی بابت بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے ٹیکس بچانے کے لیے بیرون ملک سرمایہ کاری کی۔
پیراڈائز لیکس کے مطابق کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے اعلیٰ فنڈریزر اور سینیئر مشیر اسٹیفن برونفمن نے ساتھ ملین ڈالر ایک سابقہ سینیٹر لیو کولبر کے ساتھ مل کر ٹیکس بچانے کے لیے بیرون ملک منتقل کیے۔
پیراڈائز پیپرز کا جزوی حصہ امریکا میں قائم بین الاقوامی کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (ICIJ) نے جاری کیا ہے۔ یہی ادارہ گزشتہ برس سامنے آنے والی پانامہ پیپرز دستاویزات کا جاری کرنے والا بھی تھا۔
یہ بات اہم ہے کہ ویلبر روس، برونفمن اور ملکہ برطانیہ سے متعلق یہ نہیں کہا گیا ہے کہ انہوں نے بیرون ملک خریدی گئی جائیداد غیرقانونی طور پر خریدی تھی۔
پاناما صرف ٹیکس فری جنت ہی نہیں
پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد سے وسطی امریکا کے اس ملک کا نام ہر کسی کی زبان پر ہے لیکن یہ ملک ٹیکس چوروں کی جنت کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/Demotix/E. Gerald
پاناما کی پہچان
پاناما نہر بھی بینکوں کے طرح انتہائی اہم ہے۔ 1914ء میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا تھا اور تب سے یہ اس ملکی آمدنی میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ اس نہر کی وجہ سے بحری جہاز بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان سفر کر سکتے ہیں۔ اس نہر سے پہلے بحری جہازوں کو کم از کم تین ماہ زیادہ سفر کرنا پڑتا تھا۔
پاناما کی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد حصہ صرف اس نہر سے حاصل ہوتا ہے۔ گزشتہ تقریباﹰ دس برسوں سے اس کی توسیع پر کام جاری ہے۔ اندازوں کے مطابق رواں برس جون میں توسیع کا کام مکمل کر لیا جائے گا اور اس طرح کنٹینر لے جانے والے بڑے بحری جہاز بھی اس راستے کو استعمال کر سکیں گے اور پاناما کی معیشت مزید ترقی کرے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Arangua
ایک قدرتی جنت
اس ملک میں آبشاریں، جھرنے، پہاڑ اور جنگل بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ یونیسکو نے اس کے نیشنل پارک کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔ سالانہ بیس لاکھ سے زائد سیاح اس ملک کا سفر کرتے ہیں تاکہ وہ قدرتی مناظر کو قریب سے دیکھ سکیں۔
تصویر: picture-alliance/Epa efe Fudacion Marviva
جدیدیت اور غربت کے درمیان
پاناما اگر ایک سکہ ہے تو اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ اس ملک کی شہریوں کی اوسط آمدنی دیگر ہمسایہ ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن غربت کے نشانات بھی جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاناما شہر کی بلند و بالا عمارتوں کے مضافات میں کئی کچی بستیاں ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Jasso
بالبوآ ایونیو
ملک کی یہ سب سے مہنگی سڑک نہ صرف سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے بلکہ پاناما شہر کا مرکز بھی بالبوآ ایونیو کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہ پاناما کے امراء کا علاقہ ہے، جہاں صرف اس ملک کے مخصوص شہری گھر خرید سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sergi Reboredo
دنیا کا دوسرا بڑا کارنیوال
کارنیوال کا لفظ سن کر ریو کا نام ذہن میں آتا ہے لیکن یہ جشن پاناما میں بھی انتہائی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ اس ملک میں دنیا کے دوسرے بڑے چار روزہ کارنیوال کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس دوران ملک بھر میں پارٹیوں کا انعقاد ہوتا ہے اور لوگوں نے روایتی علاقائی لباس پہن رکھے ہوتے ہیں۔
تصویر: imago/Xinhua
قومی جھنڈا اور امریکا کو خراج تحسین
1903ء میں امریکا کی فوجی مداخت کے بعد پاناما نے کولمبیا سے آزادی حاصل کی تھی۔ اس قومی جھنڈے پر عقاب کا نشان امریکا کی نمائندگی کرتا ہے۔ پاناما کو سرکاری سطح پر سب سے پہلے امریکا نے تسلیم کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ پاناما امریکا کا اپنا ’بڑا بھائی‘ سمجھتا ہے۔
تصویر: gemeinfrei
ڈیوٹی فری شاپنگ
پاناما سٹی میں واقع آلبروک شاپنگ مال کا شمار لاطینی امریکا کے سب سے بڑے شاپنگ سینٹروں میں ہوتا ہے۔ یہ سیاحوں کی بھی پسندیدہ منزل ہے۔ پاناما کا شمار ’آزاد تجارتی علاقوں‘ میں ہوتا ہے اور وہاں سے انتہائی سستے داموں اشیاء خریدیں جا سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sergi Reboredo
8 تصاویر1 | 8
تاہم امریکی وزیرمعیشت روس کا تعلق روسی کمپنیوں سے ملا ہے، جس سے یہ سوالات اٹھے ہیں کہ وہ ممکنہ طور پر ’مفادات کے تصادم‘ کے زمرے میں آ سکتے ہیں، کیوں کہ اس سے ممکنہ طور پر روس پر عائد امریکی پابندیوں پر حرف آ سکتا ہے۔
ملکہ برطانیہ سے متعلق بھی ناقدین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا برطانوی سربراہ مملکت کے طور پر انہیں ٹیکس بچانے کے لیے بیرون ملک سرمایہ کاری کرنا چاہیے تھی یا نہیں؟
ان دستاویزات کے مطابق ارب پتی ویلبر روس نیوی گیٹر ہولڈنگز نامی کمپنی کے 31 فیصد حصص کے مالک ہیں اور انہوں نے ایک پیچیدہ ویت آف شور سرمایہ کاری کا سہارا لیا۔ ان کی ان تجارتی سرگرمیوں سے متعلق تفصیلات ان دستاویزات میں شامل ہیں۔ ان دستاویزات کے مطابق وزیرمعیشت کا عہدہ سنبھالنے پر 79 سالہ اس سیاست دان نے اپنے حصص میں کمی کی۔
پاناما لیکس: جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں بھی محاسبے کی صدائیں
03:18
This browser does not support the video element.
نیویگیٹر ہولڈنگز توانائی کی روسی کمپنی سِلبر کے ساتھ شراکت داری میں ہے۔ سِلبر کے جزوی مالک روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے داماد کیریل شامالوف اور پوٹن کے دوست اور کاروباری پارٹنر گینادی تیماشینکو ہیں۔ ان دونوں روسی شخصیات پر امریکی پابندیاں عائد ہیں۔