پیرس: اعلیٰ عہدوں پر زیادہ خواتین ملازمین رکھنے پر جرمانہ
16 دسمبر 2020
پیرس کی مقامی انتظامیہ پر 2018 میں صنفی مساوات سے متعلق ایک قانون کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کر دیا گیا ہے۔ سٹی ہال میں 11 خواتین کے مقابلے صرف پانچ مردوں کی ہی اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں ہوئی تھیں۔
اشتہار
فرانس میں پبلک سروس وزارت نے دارالحکومت پیرس کی شہری انتظامیہ کے حکام پر 2018 میں اعلیٰ عہدوں پر بہت زیادہ خواتین کو ملازمت دینے پر جرمانہ عائد کیا ہے۔ حکام کے مطابق ان تقرریوں سے اس قانون کی خلاف ورزی ہوئی جو صنفی مساوات میں توازن برقرار رکھنے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔
پیرس کی مقامی انتظامیہ نے 2018 میں اعلیٰ عہدوں پر 11 خواتین کو ملازمت دی تھی جبکہ ایسے عہدوں پر مردوں کی تعداد صرف پانچ تھی۔ خواتین کے مقابلے میں مردوں کی نمائندگی صرف 30 فیصد تھی اسی لیے حکومت نے پیرس کے سٹی ہال پر نوے ہزار یورو کا جرمانہ عائد کیا۔
لیکن پیرس کی میئر اینی ہیدالگو نے منگل کے روز سٹی کونسل کی ایک میٹنگ کے دوران اس فیصلے پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے تقرریوں کو درست ٹھہرایا اور کہا کہ خواتین کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''یہ جرمانہ واضح طور پر مضحکہ خیز، غیر منصفانہ، غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک بھی ہے۔''
خواتین کا عالمی دن: ایشیائی ممالک میں صنفی مساوات
گزشتہ چند برسوں میں صنفی مساوات کی صورتحال بہتر ہونے کے باوجود آج بھی ایشیائی خواتین اور لڑکیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے ایشین ممالک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
تصویر: NDR
افغانستان
افغانستان میں امریکا کے زیر سربراہی بین الاقوامی فوجی اتحاد نے سن 2001 میں طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، جس کے بعد سے ملک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال نے ایک نیا موڑ لیا۔ تاہم موجودہ افغان حکومت میں طالبان کی ممکنہ نمائندگی کا مطلب ہے کہ خواتین ایک مرتبہ پھر تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائیں گی۔
تصویر: Getty Images/R. Conway
ایران
ایرانی خواتین کی ایک فٹ بال ٹیم تو بن چکی ہے لیکن وہاں آزادی اور خودمختاری کی لڑائی آج بھی جاری ہے۔ ایرانی وکیل نسرین سوتودیہ کو پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ وہ اسکارف کی پابندی کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین کا دفاع کر رہیں تھیں۔
تصویر: Pana.ir
پاکستان
یہ پاکستان کی پہلی کار مکینک عظمٰی نواز (درمیان میں) کی تصویر ہے۔ یہ جنوبی ایشیائی ملک خواتین کی آزادی کے راستے پر گامزن ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کراچی میں خواتین ’عورت آزادی مارچ‘
#AuratAzadiMarch میں شرکت کر رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S.S. Mirza
بھارت
بھارت میں ’خواتین بائیکرز‘ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے مثبت اقدام کے باوجود خواتین جنسی تشدد اور ریپ کا نشانہ بنتی ہیں۔ گزشتہ برس، بھارت میں متعدد خواتین نے اپنے حقوق کے دفاع کے لیے آواز بلند کی۔ #MeToo مہم کے ذریعے متاثرہ خواتین معاشرے کے طاقتور مردوں کے خلاف سراپا احتجاج تھیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
انڈونیشیا
انڈونیشی خواتین ملکی ترقی کا اہم حصہ ہیں لیکن ان کو قدامت پسند مذہبی قوانین کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر آچے صوبے میں شرعی قوانین نافذ کیے جانے کے بعد خواتین کو اسکارف پہننے پر مجبور کیا گیا اور خواتین کا نا محرم مردوں سے بات چیت کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔
تصویر: Imago/C. Ditsch
سری لنکا
سری لنکا میں صنفی مساوات کی صوتحال قدراﹰ بہتر ہے۔ سری لنکن خواتین تعلیم اور روزگار کا انتخاب خود کر سکتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا شاید واحد ایسا ملک ہے، جہاں خواتین کو صحت اور تعلیمی سہولیات تک بھرپور رسائی حاصل ہے۔
تصویر: Imago/Photothek
بنگلہ دیش
بنگلہ دیشی عوام دو دہائیوں سے زائد عرصے سے ایک خاتون کا بطور وزیراعظم انتخاب کر رہے ہیں۔ ان کے دور حکومت میں خواتین کے حقوق میں واضح بہتری پیدا ہوئی ہے۔ تاہم روزگار کی منڈی میں خواتین کی نمائندگی ابھی بھی کم ہے اور صحت و تعلیم تک محدود رسائی ہے۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
چین
چینی خواتین کو بلاشبہ ملک کی تیز معاشی ترقی سے فائدہ حاصل ہوا ہے لیکن ان کو سماج میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ آج بھی بچیوں کی پیدائش کے حوالے سے سماجی تعصب موجود ہے۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں تعلیم تک محدود رسائی فراہم کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
8 تصاویر1 | 8
ان کا مزید کہنا تھا، ''ہاں، ہمیں عزم و حوصلے اور جوش و جذبے کے ساتھ خواتین کے سماجی کردار کو وسعت دینے کی ضرورت ہے کیونکہ فرانس میں اب بھی تقریبا ہر جگہ (اس مسئلے پر) خواتین پیچھے ہیں۔''
فرانس میں صنفی مساوات سے متعلق 2013 کے ایک قانون کے مطابق کسی بھی محکمے میں اعلیٰ عہدوں پر ایک جنس کے 60 فیصد سے زیادہ افراد کی تقرریوں کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ گو کہ اس قانون کا اصل مقصد سول سروس کے اعلیٰ عہدوں تک خواتین کی رسائی کو بہتر بنانا ہے۔ فی الحال، پیرس سٹی ہال میں سینئر عہدوں پر کام کرنے والے تمام سرکاری ملازمین میں سے تقریبا ً47 فیصد خواتین ہیں۔
فرانس میں عوامی خدمات کی وزیر ایملی مونتشیلن نے ٹویٹر پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جرمانہ سن 2018 کے لیے عائد کیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد اس قانون کو ختم کردیا گیا۔
انہوں نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا، ''میں چاہتی ہوں کہ پبلک سروس میں خواتین کو فروغ دینے کے لیے پیرس 2018 کے لیے جرمانہ ادا کرے تاکہ مالی سطح پر مزید پختہ اقدامات کیے جا سکیں۔ میں آپ کو ان امور پر مزید بات چیت کے لیے وزارت میں آنے کی دعوت دیتی ہوں۔''