فرانسیسی ایئر پورٹ پر باجماعت نماز کی تصویر تنازعے کا باعث
6 نومبر 2023
سوشل میڈیا پر وائرل ہو جانے والی تصویر میں درجنوں مسافروں کو چارلس ڈیگال ایئر پورٹ پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ فرانسیسی حکومت نے اس واقعے پر ردعمل میں متعلقہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانے کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے چارلس ڈیگال ہوائی اڈے پر مسلم مسافروں کی باجماعت نماز ادا کرنے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی، جس کے بعد فرانس میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔
اس تصویر میں درجنوں مسافروں کو پیرس کے اس ہوائی اڈے پر اپنی اردن روانگی سے پہلے ڈیپارچر لاؤنج میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ تصویر فرانس کے سابقہ وزیر نوئل لینوئر نے سوشل میڈیا پر اتوار کے روز شیئر کی تھی اور اس حوالے سے تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس ہوائی اڈے کا سی ای او اس وقت کیا کرے جب اس کے ’’ایئر پورٹ کو مسجد میں تبدیل کر دیا جائے؟‘‘
اس حوالے سے ہوائی اڈے پر کام کرنے والے ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ 30 کے قریب مسافروں نے ایئر پورٹ کے ٹو بی ٹرمینل پر تقریباﹰ 10 منٹ تک نماز ادا کی۔
حجاب رکاوٹ نہیں تو اسے رکاوٹ بنایا کیوں جا رہا ہے؟
02:18
فرانسیسی حکومت نے اس واقعے کے ردعمل میں ملک میں نافذ متعلقہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروانے کا اعلان کیا ہے۔
یورپی یونین کے رکن ملک فرانس کے وزیر ٹرانسپورٹ کلیماں بیون نے پیر کے روز ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ ہوائی اڈے کے حکام مروجہ ملکی قوانین پر عمل درآمد کے لیے پوری طرح پرعزم ہیں۔
دوسری طرف ہوائی اڈے کے آپریٹر ادارے نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیا ہے۔
آپریٹر 'ایروپورٹس ڈی پیرس' کے چیف ایگزیکٹو آگسٹن ڈی رومانے نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ واقعہ افسوسناک ہے، اور ساتھ ہی انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اس ہوائی اڈے پر عبادت کے لیے مخصوص جگہیں موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد بارڈر پولیس کو نگرانی سخت کرنے اور اس قسم کے عمل پر پابندی لگانے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔
بظاہر اسرائیل اور عسکریت پسند تنظیم حماس کے درمیان جاری جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے ان دنوں اس واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے خلاف خبردار بھی کیا۔
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
فرانس میں ہوائی اڈوں سمیت سبھی عوامی مقامات پر مذہبی عقائد کی نمائش پر پابندی ہے۔ اور چارلس ڈیگال ہوائی اڈے پر تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے عبادت کی مخصوص جگہیں بھی موجود ہیں۔
فرانس میں حکمران جماعت کی ایک رکن پارلیمنٹ ایسٹرڈ بووے نے بھی اس بات کی نشاندہی کی اور زور دیا کہ حکام کو ہوائی اڈوں سمیت ہر جگہ ملک میں نافذ قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔
لیکن فرانس کے ایک بلدیاتی علاقے آلفورٹول کے میئر لوک کاروونس نے بووے کے اس بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ریمارکس کا موازنہ اسلاموفوبیا سے کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ خاتون رکن پارلیمان اپنے اس بیان کی وضاحت کریں اور اس پر معافی مانگیں۔
م ا / ع ا (اے ایف پی)
جدید اور شائستگی سے عبارت عصری مسلم فیشن ملبوسات
اسلام اور جدید طرز کے فیشن، مغربی دنیا میں کئی حلقوں کی طرف سے یہ ایک تضاد سے بھری بات قرار دی جاتی ہے۔ اس موضوع پر امریکی شہر سان فرانسسکو کے ڈی ینگ میوزیم میں منعقدہ نمائش 6 جنوری تک جاری رہے گی۔
تصویر: Sebastian Kim
جدید لیکن شائستہ
ڈی ینگ میوزیم میں رکھے گئے مسلم پہناوے جدیدیت اور شائستگی کے عناصر کے حامل خیال کیے گئے ہیں۔ مسلم ممالک میں مروج جدید فیشن کے ملبوسات ریشمی اور کرسٹل سے مزین ہیں۔ اس تصویر میں پہناوے کی ڈیزائننگ ملائیشیا کے فیشن ڈیزائنر برنارڈ چندرن نے کی ہے۔ چندرن ملائیشیا کی اشرفیہ میں ایک مقبول ڈیزائنر ہیں۔
تصویر: Fine Arts Museums of San Francisco
جکارتہ سے نیو یارک تک
ملائیشیا ہی کے ڈیان پیلانگی نے بھی اپنے فیشن ملبوسات کو مغرب میں متعارف کرایا ہے۔ اس نوجوان ڈیزائنر کے ملبوسات کو پہن کر لندن، میلان اور نیو یارک کے فیشن شوز میں مرد اور خواتین ماڈل کیٹ واک کر چکے ہیں۔
تصویر: Fine Arts Museums of San Francisco
سیاسی پیغام
ڈی ینگ میوزیم کا فیشن شو اصل میں ’اسلام سے خوف‘ سے جڑا ہوا ہے۔ ایک جیکٹ پر امریکی دستور کی پہلی شق کو عربی میں ترجمے کے ساتھ چسپاں کیا گیا ہے۔ امریکی آئین کی یہ شق آزادئ مذہب کی ضامن ہے۔ یہ جیکٹ لبنانی ڈیزائنر سیلین سیمعن ورنون کی کاوش ہے۔ یہ لبنانی فیشن ڈیزائنر سن انیس سو اسّی کی دہائی میں کینیڈا بطور مہاجر پہنچی تھیں لیکن بعد میں وہ امریکا منتقل ہو گئی تھیں۔
تصویر: Sebastian Kim
ٹرمپ کی ’مسلمانوں پر پابندی‘ کا ایک جواب
سیلین سیمعن نے اپنے ڈیزائن کردہ ملبوسات کو عصری سیاسی رویوں سے مزین کیا ہے۔ انہوں نے ’بین‘ یعنی پابندی کے لفظ کو اپنے سکارف پر واضح انداز میں استعمال کیا ہے۔ چند اسکارفس پر ایسے ممالک کی سیٹلائٹ تصاویر پرنٹ ہیں، جو امریکی صدر ٹرمپ کی عائد کردہ پابندی سے متاثر ہوئے۔ اس تصویر میں نظر آنے والی ماڈل ایرانی نژاد امریکی شہری ہُدیٰ کاتبی ہیں۔
تصویر: Fine Arts Museums of San Francisco/Driely Carter
اسپورٹس فیشن
اس نمائش میں ملبوسات، جیکٹس اور اسکارفس کے علاوہ اسپورٹس فیشن سے جڑے لباس بھی رکھے گئے ہیں۔ ان میں نائکی کا حجاب اور احدہ زانیٹی کی متنازعہ برکینی بھی شامل ہیں۔ اس برکینی کو سن 2016 میں فرانس میں عبوری مدت کے لیے پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
تصویر: DW/A. Binder
طرز تعمیر کی علامتی طاقت
ڈی ینگ میوزیم کے نمائشی ہال کو مشہور تعمیراتی فرم حریری اینڈ حریری نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ تعمیراتی فرم دو ایرانی نژاد امریکی بہنوں کی ہے۔ نمائش دیکھنے والے اس ہال کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ نمائش فرینکفرٹ اور میلان میں بھی کی جائے گی۔
تصویر: DW/A. Binder
سوشل نیٹ ورکس: اظہار کے مقام
اس نمائش کو مسلم دنیا کے درجنوں بلاگرز، فیشن جریدوں اور سرگرم کارکنوں سے معنون کیا گیا ہے۔ اس نمائش میں جدید عصری مسلم دنیا کے فیشن ملبوسات کے کئی پہلوؤں کو سمو دیا گیا ہے۔ سان فرانسسکو میں یہ نمائش اگلے برس چھ جنوری تک جاری رہے گی۔