پیرس حملوں کے ملزم عبدالسلام کو برسلز مقدمے میں بیس سال قید
23 اپریل 2018
دو ہزار پندرہ میں پیرس کے دہشت گردانہ حملوں کے واحد زندہ مشتبہ ملزم صالح عبدالسلام کو بیلجیم کے دارالحکومت برسلز کی ایک عدالت نے دہشت گردانہ محرکات کے تحت اقدام قتل کے ایک علیحدہ مقدمے میں بیس سال قید کی سزا سنا دی ہے۔
اشتہار
صالح عبدالسلام 2015ء میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں کیے گئے سلسلے وار دہشت گردانہ حملوں کا واحد زندہ مشتبہ ملزم ہے، جس کے خلاف ان الزامات کے تحت مقدمے کی سماعت ابھی شروع نہیں ہوئی۔ آج پیر تئیس اپریل کو برسلز میں ایک عدالت نے اسے ایک علیحدہ مقدمے میں قصور وار قرار دیتے ہوئے بیس سال کی سزائے قید کا حکم سنا دیا۔ اس پر یہ الزام ثابت ہو گیا تھا کہ وہ دہشت گردانہ حملے کی سوچ کے تحت اقدام قتل کا مرتکب ہوا تھا۔
بلجیم کی اس عدالت نے اسی مقدمے میں صالح عبدالسلام کے ایک ساتھی ملزم، چوبیس سالہ سفیان عیاری کو بھی، جو تیونس کا شہری ہے، اسی نوعیت کے الزام میں 20 سال سزائے قید کا حکم سنا دیا۔ ساتھ ہی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا، ’’اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ان ملزمان کی بنیاد پرستانہ سوچ کی جڑیں بہت گہری ہیں۔‘‘
عبدالسلام اور اس کے ساتھ عیاری کے خلاف اس مقدمے کا تعلق مارچ 2016ء میں برسلز میں پیش آنے والے ایک واقعے سے تھا۔ اس واقعے میں عبدالسلام اور اس کے ساتھی نے بیلجیم کی پولیس کی طرف سے ایک چھاپے کے دوران پولیس اہلکاروں پر فائرنگ شروع کر دی تھی۔
یہ اس فائرنگ کے واقعے کے تین دن بعد ہوا تھا کہ صالح عبدالسلام کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کی گرفتاری برسلز شہر کے مولن بیک نامی اس علاقے سے عمل میں آئی تھی، جسے بیلجیم میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے شدت پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ مولن بیک سے صالح عبدالسلام کی گرفتاری کے محض چند ہی روز بعد برسلز میں ایک سے زائد بڑے دہشت گردانہ حملے بھی کیے گئے تھے۔ ان واقعات میں 22 مارچ 2016ء کے روز برسلز میں دو مختلف مقامات پر خود کش حملہ آوروں نے بڑے ہلاکت خیز بم دھماکے کیے تھے، جن میں مجموعی طور پر 32 افراد ہلاک اور سینکڑوں دیگر زخمی ہو گئے تھے۔
صالح عبدالسلام کی عمر اس وقت 28 سال ہے۔ وہ ایک ایسا فرانسیسی شہری ہے، جو بیلجیم میں پیدا ہوا تھا اور جس کے مبینہ طور پر مارچ 2016ء میں برسلز میں دہشت گردانہ حملے کرنے والے شدت پسندوں کے ساتھ روابط تھے۔
صالح عبدالسلام کو اپنے خلاف پیرس میں ایک علیحدہ مقدمے کا سامنا بھی کرنا ہے کیونکہ وہ 13 نومبر 2015ء کو پیرس ہی میں کیے گئے ان دہشت گردانہ حملوں میں بھی مبینہ طور پر ملوث تھا، جن میں ایک ہی دن چھ مختلف مقامات پر کی جانے والی خونریز کارروائیوں میں 130 افراد مارے گئے تھے۔
یورپ میں دہشت گردانہ حملوں کا تسلسل
گزشتہ برسوں کے دوران مختلف یورپی شہروں کو دہشت گردانہ واقعات کا سامنا رہا ہے۔ تقریباً تمام ہی واقعات میں مسلم انتہا پسند ہی ملوث پائے گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/D. Ramos
اگست سن 2017،بارسلونا
ہسپانوی شہر بارسلونا کے علاقےلاس رامباس میں کیے گئے حملے میں کم از کم تیرہ ہلاک ہوئے ہیں۔ اس واقعے میں دہشت گرد نے اپنی وین کو پیدل چلنے والوں پر چڑھا دیا تھا۔
تصویر: Imago/E-Press Photo.com
مارچ اور جون سن 2017، لندن
برطانیہ کے دارالحکومت میں دو جون کو تین افراد نے ایک کار لندن پل پر پیدل چلنے والوں پر چڑھا دی بعد میں کار چلانے والوں نے چاقو سے حملے بھی کیے۔ لندن پولیس نے تین حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے سے قبل ایسے ہی ایک حملے میں چار افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ جون ہی میں ایک مسجد پر کیے گئے حملے میں ایک شخص کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Akmen
مئی سن 2017، مانچسٹر
برطانوی شہر مانچسٹر میں امریکی گلوکارہ آریانے گرانڈے کے کنسرٹ کے دوران کیے گئے خود کش بمبار کے حملے میں کم از کم 22 انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل تھے۔ ایک سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/R. Boyce
اپریل سن 2017، اسٹاک ہولم
سویڈن کے دارالحکومت ایک ٹرک پیدل چلنے والوں پر چڑھانے کے واقعے میں پانچ افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس حملے میں ملوث ہونے کے شبے میں ایک 39 برس کے ازبک باشندے کو حراست میں لیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ringstrom
فروری، مارچ، اپریل سن 2017، پیرس
رواں برس کے ان مہینوں میں فرانسیسی دارالحکومت میں مختلف دہشت گردانہ حملوں کی کوشش کی گئی۔ کوئی بہت بڑا جانی نقصان نہیں ہوا سوائے ایک واقعے میں ایک پولیس افسر مارا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Paris
دسمبر سن 2016، برلن
جرمنی کے دارالحکومت برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ پر کیے گئے حملے میں ایک درجن افراد موت کا نوالہ بن گئے تھے۔ حملہ آور تیونس کا باشندہ تھا اور اُس کو اطالوی شہر میلان کے نواح میں پولیس مقابلے میں مار دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/S. Loos
جولائی سن 2016، نیس
فرانس کے ساحلی شہر نیس میں پیدل چلنے والوں کے پرہجوم راستے پر ایک دہشت گرد نے ٹرک کو چڑھا دیا۔ اس ہولناک حملے میں 86 افراد مارے گئے تھے۔ اسلامک اسٹیٹ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تصویر: Reuters/E. Gaillard
مارچ سن 2016، برسلز
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز کے میٹرو ریلوے اسٹیشن پر کیے گئے خودکش حملوں میں کم از کم 32 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
جنوری سن 2016، استنبول
ترکی کے تاریخی شہر استنبول کے نائٹ کلب پر کیے گئے حملے میں 35 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ ان ہلاک شدگان میں بارہ جرمن شہری تھے۔ حملہ آور کا تعلق اسلامک اسٹیٹ سے بتایا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/Depo Photos
نومبر سن 2015، پیرس
پیرس میں کیے منظم دہشت گردانہ حملوں میں 130 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔ ان حملوں کے دوران ایک میوزک کنسرٹ اور مختلف ریسٹورانٹوں پر حملے کیے گئے تھے۔ حملہ آور جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے حامی تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Guay
فروری سن 2015، کوپن ہیگن
ڈنمارک کے دارالحکومت میں واقع ایک کیفے پر ایک نوجوان کی فائرنگ سے ایک شخص کی موت واقع ہوئی تھی۔ اسی حملہ آور نے بعد میں ایک یہودی عبادت گاہ کے محافظ کو بھی ہلاک کیا تھا۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
جنوری سن 2015، پیرس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ایک میگزین کے دفتر اور یہودیوں کی اشیائے ضرورت کی مارکیٹ پر کیے گئے حملوں میں 17 افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Feferberg
مئی سن 2014، برسلز
فرانس سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان حملہ آور نے بیلجیم کے یہودی میوزیم پر فائرنگ کر کے چار افراد کو موت کی گھاٹ اتار دیا۔ حملہ آور ایک خود ساختہ جہادی تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images/G. Gobet
جولائی سن 2005، لندن
چار برطانوی مسلمانوں نے لندن میں زیر زمین چلنے والے ٹرام کو مختلف مقامات پر نشانہ بنایا۔ ان بم حملوں میں 56 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: dpa
مارچ سن 2004، میڈرڈ
منظم بم حملوں سے ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ کے ریلوے اسٹیشن پر 191 انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ ان بموں کے پھٹنے سے پندرہ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
تصویر: AP
15 تصاویر1 | 15
یہ حملے فرانس میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کیے جانے والے آج تک کے سب سے ہلاکت خیز حملے تھے۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں پیشی کے لیے عبدالسلام کو بیلجیم سے ملک بدر کر کے فرانس کے حوالے کر دیا گیا تھا، جہاں اسے پیرس کے نواح میں بہت سخت حفاظتی انتظامات والی ایک جیل میں رکھا گیا ہے۔
آج تئیس اپریل کو عبدالسلام اور اس کے ساتھی ملزم عیاری کو برسلز میں جو سزائیں سنائی گئیں، ان کے لیے یہ دونوں ملزم ذاتی طور پر عدالت میں موجود نہیں تھے۔ اس مقدمے کی کارروائی میں عبدالسلام نے بطور ملزم سماعت کے آغاز پر صرف ایک ہی بار شرکت کی تھی، جس کے بعد اس نے عدالت کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اپنے اس موقف کی اس ملزم نے وجہ یہ بتائی تھی کہ برسلز کی یہ عدالت اس کے بقول مسلمانوں کے حوالے سے تعصب کا مظاہرہ کر رہی تھی۔
م م / ا ا / ڈی پی اے، اے ایف پی
پیرس حملوں پر دنیا بھر میں اداسی
سڈنی سے لے کر سان فرانسِسکو تک، دنیا کے تقریبا سبھی بڑے شہر پیرس حملوں میں مارے جانے والوں کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ ان شہروں کی تاریخی و یادگاری عمارتیں بھی فرانس کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی نظر آ رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Reed
جرمنی دکھ میں برابر کا شریک
جرمن دارالحکومت برلن میں واقع تاریخی مقام برانڈن بُرگ گیٹ بھی فرانس کے پرچم کے رنگوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ جرمن عوام کے ساتھ ساتھ حکومت نے بھی فرانس کے ساتھ دلی ہمدردی اور انتہائی دکھ کا اظہار کیا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ برلن اور پیرس شانہ بشانہ دہشت گردی کے خلاف لڑتا رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
روشنی، زندگی کی نئی امید
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسِسکو کے سٹی ہال کی بلڈنگ نیلے، سفید اور سرخ رنگوں سے روشن کر دی گئی۔ یہی تین رنگ فرانس کے پرچم کا حصہ ہیں۔ پیرس حملوں کے بعد امریکی حکومت نے فرانس کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
تصویر: Reuters/St. Lam
’ آپ کے دلوں کے ساتھ ہمارے دل بھی شکستہ ہیں‘
آسٹریلوی شہر سڈنی میں قائم اوپرا ہاؤس کی تاریخی عمارت بھی پیرس حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اظہار تعزیت کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس عمارت پر بھی فرانسیسی پرچم کے تین رنگ بکھرے ہوئے ہیں، یعنی نیلا، سفید اور سرخ۔ آسٹریلوی وزیر اعظم نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’ہمارے دل ٹوٹ گئے ہیں لیکن ہمارے حوصلے کبھی پست نہیں ہوں گے‘۔
تصویر: Reuters/J. Reed
کینیڈا بھی مغموم
کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں واقع لینڈ مارک CN ٹاور بھی نیلے، سفید اور سرخ رنگوں سے روشن کر دیا گیا۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹِن ٹرُوڈو نے کہا ہے کہ اس مشکل وقت میں ان کا ملک فرانس کے ساتھ ہے۔
تصویر: Reuters/Ch. Helgren
’نفرت انگیز حملے‘
امریکی ریاست نیواڈا میں واقع روشنیوں کا شہر لاس ویگاس بھی اداس ہے۔ پیرس حملوں کے بعد’لاس ویگاس اسٹریپ‘ میں ’ہائی رولر‘ کی روشنیاں بھی نیلی، سفید اور سرخ رنگوں میں تبدیل کر دی گئیں۔ پیرس حملوں میں 129 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے اس بہیمانہ کارروائی کو نفرت انگیز حملوں سے تعبیر کیا ہے۔
تصویر: Getty Images/E. Miller
چین کی طرف سے حمایت
شنگھائی کا ’اوریئنٹل پرل ٹی وی ٹاور‘ پر بھی ہفتے کی رات ایک گھنٹے کے لیے فرانس کا پرچم دکھائی دیا۔ چینی وزارت خارجہ کے مطابق پیرس حملوں پر چین کو ایک دھچکا پہنچا ہے۔ بیجنگ نے بھی فرانس کے ساتھ بھرپور اظہار یک جہتی کیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
میکسیکو سٹی بھی فرانس کے ساتھ
میکسیکو سٹی نے بھی فرانس کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے۔ وہاں واقع سیاحوں میں انتہائی مقبول Angel de la Independencia بھی نیلے، سفید اور سرخ رنگ کی روشنیوں کے لباس میں پیرس حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ تعزیت کرتا رہا۔ ادھر پیرس میں ائیفل ٹاور سمیت دیگر تمام سیاحتی اور تفریحی مراکز کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Bravo
نیوزی لینڈ کی طرف سے تعزیت
نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم جان کِی نے پیرس حملوں میں ہلاک ہو جانے والوں کے لیے خصوصی تعزیتی پیغام جاری کیا ہے۔ ان کی بیٹی پیرس میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ نیوزی لینڈ کے شہر آک لینڈ کا ’اسکائی ٹاور‘ بھی فرانسیسی پرچم کے رنگوں سے سجا دیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Ben-Ari
سکیورٹی میں اضافہ
میکسیکو سٹی کی سینیٹ بلڈنگ نے بھی فرانس کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور پر اپنی روشنیوں کا رنگ بدل لیا۔ اس بلڈنگ میں نیلا، سفید اور سرخ رنگ دکھائی دیا۔ فرانس نے کہا ہے کہ اس نے دنیا بھر میں اپنی سرکاری عمارتوں اور سفارتی مشنز کی سکیورٹی بڑھا دی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Bravo
تائیوان میں اداسی کی لہر
پیرس سے دس ہزار کلو میٹر دور تائیوانی دارالحکومت تائپی کی 101 نامی تاریخی بلڈنگ بھی نیلے، سفید اور سرخ رنگوں کی روشنیوں میں دکھائی دی۔ فرانسیسی طبی حکام کے مطابق پیرس حملوں میں تین سو سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 80 کی حالت نازک ہے۔
تصویر: Reuters/P. Chuang
دکھ بانٹنا
امریکی شہر نیو یارک میں ’ون ورلڈ ٹریڈ سینٹر‘ بھی فرانسیسی پرچم کے مانند دکھائی دیا۔ یہ ٹاور اسی اسکائی اسکریپر کے مقام پر تعمیر کیا گیا، جو گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں میں تباہ ہو گیا تھا۔ امریکی حکام نے تصدیق کی ہے کہ پیرس حملوں میں کچھ امریکی شہری بھی زخمی ہوئے ہیں۔