1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس حملہ ، پاکستان کی جانب سے مذمت

عدنان اسحاق8 جنوری 2015

پاکستانی وزارت خارجہ نے پیرس میں اخبار شارلی ایبدو پر ہونے والے حملے میں جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا کہ پاکستان دہشت گردی کی ہر قسم کو مسترد کرتا ہے چاہیے اس کی کوئی بھی وجہ ہو۔

تصویر: DW/A. Mohtadi

اسلام آباد حکومت کی جانب سے فرانسیسی اخبار شارلی ایبدو پر ہونے والے حملے کے تناظر میں جاری کیے جانے والی مذمتی بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’اس موقع پر پاکستانی حکومت پیرس حکام اور مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ ہے‘‘۔ اس بیان میں جانوں کے ضیاع پر شدید افسوس کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ مزید کہا گیا کہ ’’ہم پر اعتماد ہیں کہ بین الاقوامی برادری دہشت گردی کے خلاف متحد رہے گی اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹھہرے میں لانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔‘‘

اسلام آباد میں ہمارے نمائندے شکور رحیم نے اس سلسلے میں بات کی معروف صحافی ضیاء الدین سے۔ انہوں نے کہا ’’یہ بہت ہی خوفناک واقعہ ہے اور اسے رونما نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس واقعے نے دنیا بھر میں مسلم برادری کو ایک غیر انسانی روپ میں پیش کیا ہے۔‘‘

تصویر: Reuters/J. Naegelen

ضیاء الدین نے مزید کہا ایسا قانون بھی ہونا چاہیے جس میں تمام کمیونیٹیز کا احترام کیا جائے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ آزادی اظہار کا حق ہونا چاہیےتاہم مذہبی جذبات کا احترام بھی لازمی ہے۔’’میرے خیال میں اس معاملے میں آزادی رائے کی بات نہیں ہے، یہ تو سیدھا سیدھا ایک دہشت گردی کا واقعہ ہے۔ خود پاکستان کو صحافیوں کے لیے دنیا بھر میں خطرناک ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس جنگ کی بناء پر، جو دہشت گردی کے خلاف لڑی جا رہی ہے، تو ایسے میں دہشت گردی کے ایک واقعے کو کسی اور تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے۔‘‘

ملک کے ایک اور معروف صحافی اور اینکر پرسن طلعت حسین کہتے ہیں: ’’پیرس میں ہونے والا یہ حملہ ویسے تو فرانس کا داخلی معاملہ ہے لیکن پیرس حکومت کو اس وقت اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اگر وہ ’کیوں‘ کے بجائے ’کیا ہوا ہے‘ پر توجہ دے گی تو وہ کبھی بھی اس مسئلے پر قابو نہیں پا سکیں گے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکیوں نے یہی غلطی کی تھی اور وہ صرف حملوں کی تعداد، ان میں ہلاک ہونے والوں اور اسی طرح کی دیگر معلومات تک ہی محدود رہے۔ طلعت کے بقول امریکیوں کو ابھی تک ایک عجبیب خارجی صورت حال کا سامنا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اسی لیے ایسی صورت حال میں خود اپنا مشاہدہ کرنا اور جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔

سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام ( فضل الرحمن گروپ) کے حافظ حسین احمد کہتے ہیں کہ اخبار شارلی ایبدو کو نشانہ بنانا آزادی رائے پر حملے کے مترادف بھی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ آج کل پوری دنیا کے صحافی اپنی حساس ذمہ داریوں کی وجہ سے شدید دباؤ میں ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس سے قطع نظر کہ شارلی ایبدو نے ماضی میں متنازعہ مواد شائع کیا تھا لیکن اس قابل مذمت رد عمل کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر کسی مسلمان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو اسے اپنی ناراضی کا اظہار پر امن طریقے سے کرنا چاہیے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں