پیرس: لوور میوزیم عام عوام کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا
12 اپریل 2013
لوور میوزیم کے حکام نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ملازمین کے خدشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تقریباﹰ بیس پولیس اہلکاروں کو میوزیم میں گشت کے لیے تعینات کر دیا گیا اور ساتھ ہی شناخت شدہ جیب کتروں کی میوزیم میں داخلے پر عارضی طور پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔
حال ہی میں میوزیم کے دو سو ملازمین نے جیب کتروں کے گروہوں کی میوزیم میں بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے خلاف احتجاجاﹰ کام کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے میوزیم کو ایک دن کے لیے بند رکھنا پڑا۔ میوزیم میں جیب کتروں میں اکثریت بچوں کی ہے۔
میوزیم ملازمین کی یونین کے ایک اہلکار Christelle Guyaderنے کہا ہے کہ اعلیٰ حکام نے میوزیم کی عمارت کے اردگرد پولیس کی موجودگی بڑھانے سمیت کئی دیگر سکیورٹی اقدامات کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جیت کتروں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجہ سے ملازمین بہت پریشان ہیں۔ ٫٫جیب کتروں کے بہت سے گروپ کا رویہ بہت ہی جارہانہ ہے۔۔ ان جیب کتروں میں اکثریت بچوں کی ہے جو میوزیم میں بغیر کسی فیس کے داخل ہو جاتے ہیں۔ پولیس ان کو پکڑ کر لے جاتی ہے لیکن رہائی پانے کے فوراﹰ بعد ہی یہ دوبارہ میوزیم کا رخ کرتے ہیں۔‘‘
انہی وارداتوں کے خلاف دو سو ملازمین حال ہی میں اپنا احتجاج کا حق استعمال کرتے ہوئے میوزیم سے باہر نکل گئے۔ ایک سو ملازمین نے وزارت ثقافت کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ ملازمین کی یونین کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ لوور اور سیاحت کے دوسرے مقامات پر اکثر جیب کترے پائے جاتے ہیں لیکن گزشتہ چند عرصے میں ان کی کارروائیوں میں تشدد کا عنصر آ گیا ہے۔
میوزیم بند ہونے کے باوجود حسب معمول سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بدھ کے روز اس مشہور زمانہ آرٹ گیلری کے کھلنے کا انتظار کرتی رہی۔ سال میں تقریباﹰ ایک کروڑ سیاح اس میوزیم کا دورہ کرتے ہیں۔ اس کا شمار دنیا کے بڑے اور سب سے زیادہ دیکھے جانے والے عجائب گھروں میں ہوتا ہے۔ اس طرح کے واقعات فرانس کے دارلحکومت پیرس کے لیے ایک دھچکا ہیں۔ حال ہی میں چینی سیاہوں کے ایک گروپ کو نا معلوم افراد کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ ان سیاحوں کے گائیڈ پر حملہ ہوا اورحملہ آوروں نے ان سے پاسپورٹ اور نقد رقم چھین لی۔
zh/km (AFP)