پیرس معاہدے سے بھی ’بڑھ کر اقدامات‘ اٹھائیں گے، مودی
3 جون 2017
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں سے ملاقات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پیرس ماحولیاتی معاہدے سے بھی ’اگے اور اوپر‘ جا کر اقدامات اٹھائیں۔
اشتہار
امریکی صدر کی طرف سے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے اخراج کے اعلان کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا بیان دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’بھارت پیرس معاہدے سے آگے جاتے ہوئے اس پر کام کرے گا‘ کیوں کہ یہ مشترکہ عالمی ورثہ ہے۔
آج بروز ہفتہ فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں سے دو گھنٹے طویل ملاقات کرنے کے بعد مودی کا کہنا تھا کہ سن دو ہزار پندرہ میں ایک سو پچانوے ممالک نے جس معاہدے پر پیرس میں دستخط کیے تھے، وہ ’’ہمارے لیے امید ہے اور ہماری آئندہ نسلوں کے مستقبل کی حفاظت کر سکتا ہے۔‘‘
بھارت ضرر رساں گیسوں کے اخراج کے اعتبار سے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ دنیا میں ضرر رساں گیسوں کا چار فیصد سے زائد حصہ پیدا کرتا ہے۔ بھارت نے دیگر ملکوں کی طرح اس مقدار میں کمی کا تو کوئی اعلان نہیں کیا لیکن یہ ضرور کہا ہے کہ وہ ماحول دوست توانائی کے استعمال میں اضافہ کرے گا۔
مودی کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے فرانسیسی صدر کو یقین دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے‘۔ ماکروں پیرس معاہدے کا یورپ کی طرف سے دفاع جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے امریکی صدر کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ جب ٹرمپ کی طرف سے اس معاہدے سے نکل جانے کا اعلان کیا تھا، تو فرانسیسی صدر نے ’میک دا پلینٹ گریٹ اگین‘‘ کی اپیل کی تھی۔ یہ ٹرمپ کی اس اپیل کا جواب تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا، ’’میک دا امریکا گریٹ اگین۔‘‘
ٹرمپ کی طرف سے چین اور بھارت پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے اس حوالے سے آسان راستہ اختیار کیا ہے۔
مودی کا کہنا تھا کہ ’’زمین ماتا کی حفاظت‘‘ کرنا بھارتی ثقافت کا حصہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایسا کرنا ان کے مذہب کے حوالے سے بھی اہم ہے کیوں کہ یہ بات ان کا مذہب سکھاتا ہے۔ فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ وہ شمسی توانائی کے حوالے سے ہونے والے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے رواں سال کے اوآخر میں بھارت کا دورہ کریں گے۔
2016ء: ان بارہ اہم واقعات نے ماحول اور موسم پر اثرات ڈالے
رواں برس ختم ہونے کے قریب ہے اور سیاسی اتار چڑھاؤ کی وجہ سے یاد رہے گا۔ اسی برس بریگزٹ اور امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج نے ماحولیاتی کیلینڈر پر نشان ثبت کیے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے سن 2016 کے بارہ اہم واقعات کچھ یوں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Nigro
جنوری: موسمی انتشار
عالمی سطح پرموسم میں پائے جانے والے عدم استحکام نے موسم سرما کو شدید کر دیا۔ فضائی آلودگی کے خدشات اور اندیشوں کے ساتھ اقوام عالم سن 2016 میں داخل ہوئیں۔ ڈوئچے ویلے نے رپورٹ کیا کہ موسم میں افراتفری یقینی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔
تصویر: picture alliance/R. Kalb
فروری: سانس روکے رکھیں
سال کے سب سے چھوٹے مہینے میں بھی بہتر انداز میں سانس لینے کی مہلت دستیاب نہیں ہوئی۔ فضائی آلودگی کی صورت حال جرمنی سے چین اور پھر بھارت تک پائی گئی۔اس فضائی آلودگی کی وجہ سے قبل از وقت موت اور صحت کے گھمبیر معاملات میں اضافہ دیکھا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ How Hwee Young
مارچ: جوہری آلودگی کا تسلسل
جاپانی جوہری پلانٹ فوکوشیما کے زلزلے اور پھر سونامی کے نتیجے میں تباہ ہونے کے پانچ برس مکمل ہو گئے۔ جرمنی اپنے جوہری پاور سیکٹر سے بتدریج باہر نکلتے ہوئے متبادل انرجی پر انحصار کی پالیسی کو آگے بڑھانے میں مصروف رہا۔ جرمنی میں ابھی بھی ایک سو کے قریب جوہری ری ایکٹرز چالو ہیں۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
اپریل: امریکا میں دریائے میسوری کو بچانے کی کوششیں
سن 2016 کے مہینے اپریل میں شمالی ڈاکوٹا کی چٹان سیوکس کے باسیوں نے دریائے میسوری کے تحفظ کے لیے صدائے احتجاج بلند کی۔ اس احتجاج نے رواں برس کے نویں مہینے ستمبر تک زور پکڑ لیا اور عالمی سطح پر بھی اِسے حمایت حاصل ہو گئی۔ اوباما انتظامیہ نے پائپ لائن کی تعمیر کو روک دی۔ اس طرح مقامی امریکیوں کی تحریک نے ایک بڑی کامیابی حاصل کی لیکن ابھی بھی یہ پلان معطل ہے، ختم نہیں کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Nigro
مئی: کورال چٹانوں کی تباہی
مسلسل انتباہی پیغامات کے باوجود جب احتیاطی عمل شروع نہ ہوا تو آسٹریلیائی ریاست کوئنزلینڈ کے قریب زیرسمندر کورال چٹانوں کے ایک وسیع حصے میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو گیا۔ آسٹریلوی کورال چٹانوں کو زیرسمندر ایک عجوبے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا سمیت دنیا بھر کی کورال چٹانوں میں پیدا ہونے والی دراڑوں اور شکست و ریخت کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور ال نینو کا منفی اثر قرار دیا گیا۔
تصویر: XL Catlin Seaview Survey
جون: شدید موسم کی واپسی
موسم سرما کی طرح کئی ملکوں کو شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کا یہ ایک اور شاخسانہ قرار دیا گیا۔ زیادہ درجہٴ حرارت سے مختلف جنگلاتی علاقوں میں آگ لگنے کے واقعات سامنے آئے۔ کئی ممالک میں پیدا ہونے والی خشک سالی سے ہزاروں انسان متاثر ہوئے۔ کچھ علاقوں میں شدید بارشیں سیلاب کا سبب بنی اور بےشمار انسان ہلاک ہوئے۔ یہ حیران کن نہیں کہ سن 2016 تاریخ کا گرم ترین سال قرار دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Mcnew
جولائی: سیاست اور ماحولیات
مختلف ریفرنڈمز کے حیران کُن نتائج نے یورپی ماحولیاتی تحفظ اور ماہی گیری کی پالیسوں کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ بریگزٹ کے بعد نئی برطانوی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ وہ برطانوی حکومت کا محکمہ برائے توانائی اور ماحولیاتی تبدیلی کو بند کر رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/T. Nicholson
اگست: ریو اولمپکس اور ماحولیاتی آلودگی
اولمپک کھیلوں کے انعقاد کے موقع پر ماحولیاتی آلودگی کا معاملہ بھی زیر غور رہا۔ برازیل کے خلیج گوانابارا کو زہریلے اور کیمیاوی فضلے کا سامنا رہا۔ یہی خلیج گوانابارا اولمپک گیمز کے کشتی رانی کے مقابلوں کا مقام بھی تھا۔ اولمپک گیمز ایک موقع تھا کہ اِس خلیج کو آلودگی سے پاک کر دیا جائے لیکن یہ موقع گنوا دیا گیا۔
تصویر: DW/P. Neitzsch
ستمبر: ماحولیاتی ڈیل کے لیے پیش رفت
ماحولیاتی تبدیلیوں کی شدت دیکھتے ہوئے مختلف ملکوں نے پیرس کی کلائمیٹ ڈیل کی توثیق کر دی۔ توثیق کرنے والوں میں میں چین اور امریکا بھی شامل تھے۔ ان دونوں بڑے ملکوں کی دیکھا دیکھی درجنوں دوسرے ملک بھی توثیق کے عمل میں شریک ہو گئے۔
تصویر: Reuters/H. Hwee Young
اکتوبر: ماحولیاتی تنوع پر توجہ
جنوبی افریقی شہر جوہانس برگ میں ناپید ہونے والی نباتات و حیوانات کی بین الاقوامی تجارت کو روکنے کے لیے ایک کنونش کا انعقاد کیا گیا۔ ان ناپید ہونے والی جانوروں میں ہاتھی، گینڈے اور پینگولین خاص طور پر نمایاں ہیں کیونکہ اگر جلد حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ زمین پر سے نابود ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
نومبر: دنیا لرز کر رہ گئی
امریکا کے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے حیران کن کامیابی حاصل کی۔ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد پیرس کلائمیٹ ڈیل کی توثیق پر نظرثانی کریں گے۔ ان اعلانات سے ماحولیات کے لیے کام کرنے والوں میں تشویش کی لہر پیدا ہو چکی ہے۔
تصویر: Reuters/C. Allegri
دسمبر: گرم ترین سال
سن 2016 محفوظ کی گئی تاریخ میں گرم ترین سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس برس کے دوران عالمی سطح پر اوسطاً ایک درجہ سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا 2017 ماحولیات کی بہتری کے لیے عالمی کاوشوں کا سال ہو سکتا ہے یا نہیں۔