پیرس میں چاقو سے مہلک حملے کے ملزم کا آخری پیغام ’اللہ اکبر‘
7 اکتوبر 2019
فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے پولیس ہیڈ کوارٹرز میں گزشتہ ہفتے ایک چاقو سے ہلاکت خیز حملہ کرنے والے ملزم کے بارے میں نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ملزم کا اپنی بیوی سے موبائل فون پر چیٹ کے دوران آخری پیغام ’اللہ اکبر‘ تھا۔
اشتہار
پیرس سے پیر سات اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی وزیر داخلہ کرسٹوف کاستانر اب ایک ایسا نیا نظام متعارف کرانا چاہتے ہیں، جس کی مدد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں، خاص طور پر ملکی پولیس فورس کے اہلکاروں میں مذہبی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے رجحانات کا بروقت پتہ چلایا جا سکے گا۔
کاستانر نے ریڈیو 'فرانس انٹر‘ کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پولیس فورس میں کسی بھی طرح کی انتہا پسندی کو آئندہ ایک خود کار طریقے سے اعلیٰ حکام کو رپورٹ کیا جائے۔
انہوں نے یہ بات پیرس ہی میں گزشتہ ہفتے جمعرات کے روز کیے جانے والے ایک ایسے خونریز حملے کے تناظر میں کہی، جس میں پولیس ہی کے ایک سویلین اہلکار نے چاقو سے حملے کر کے پیرس کے پولیس ہیڈ کوارٹرز میں اپنے چار ساتھیوں کو قتل کر دیا تھا اور اس دوران وہ خود بھی موقع پر موجود ایک پولیس اہلکار کی طرف سے فائرنگ میں مارا گیا تھا۔
فرانسیسی وزیر داخلہ نے آج پیر کے روز کہا، ''یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس واقعے میں فرانسیسی ریاست اپنے فرائض کی مکمل اور بھرپور ادائیگی میں ناکام رہی۔ تین اکتوبر کو جس مسلح پولیس اہلکار نے چاقو سے حملہ کر کے چار پولیس افسران کی جان لے لی، اس 45 سالہ ملزم کے بارے میں پولیس کے ریکارڈ میں ایسی کوئی معلومات موجود ہی نہیں تھیں کہ وہ بنیاد پرست اور دہشت گردوں کا ہمدرد بن چکا تھا۔‘‘
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
فرانسیسی وزیر داخلہ کے مطابق، ''تین اکتوبر کو پیرس میں مجموعی طور پر پانچ انسانی ہلاکتوں کی وجہ بنے والے اس واقعے سے متعلق ایک سچ یہ بھی ہے کہ ریاست کی کارکردگی ناقص رہی اور اس حملے کے دوران خود بھی مارے جانے والے حملہ آور سے متعلق پولیس کو ایسی کوئی اطلاع ہی نہیں تھی کہ اس کا رویہ مشکوک ہو چکا تھا، جس کی چھان بین ضروری تھی۔‘‘
ملکی اپوزیشن کا الزام
پیرس میں اس خونریز حملے کے بارے میں ملکی اپوزیشن کا وزیر داخلہ کاستانر پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے اس حملے کے ملزم سے متعلق اصل حقائق کو اس حملے کے بعد کے چند گھنٹوں میں چھپانے کی کوشش کی تھی۔ وزیر داخلہ لیکن اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پولیس کو علم ہی نہیں تھا کہ اس کا یہ سویلین اہلکار انتہا پسندانہ سوچ کا حامل ہو چکا تھا۔
خونریز دہشت گردانہ واقعات کی چھان بین کرنے والے فرانسیسی ماہرین کے مطابق تین اکتوبر کے حملے کا مرکزی ملزم نہ صرف اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا حامی بن چکا تھا بلکہ اس نے ان دہشت گردوں کے لیے بھی ہمدردی کا اظہار کیا تھا، جنہوں نے 2015ء میں فرانسیسی جریدے 'شارلی ایبدو‘ کے دفاتر پر ہلاکت خیز حملہ کیا تھا۔
فرانس، انسداد دہشت گردی کے نئے قوانین میں نیا کیا ہے؟
فرانس سکیورٹی کو یقینی بنانے کی خاطر نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں، جن کے تحت انسداد دہشت گردی کے لیے بھی کئی شقیں شامل ہیں۔ آخر ان ضوابط میں ہے کیا؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں ان کے اہم حصوں پر۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Tribouillard
نقل وحرکت پر پابندیاں
نئے قانون کے مطابق ایسے مشتبہ افراد، جن پر دہشت گرد تنظیموں سے روابط کا شبہ ہو گا، وہ اس شہر سے باہر نہیں جا سکیں گے، جہاں ان کی رجسٹریشن ہوئی ہو گی۔ انہیں روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ تھانے میں پیش بھی ہونا پڑے گا۔ ایسے افراد کے کچھ مخصوص مقامات پر جانے پر پابندی بھی عائد کی جا سکے گی۔ یہ اقدامات صرف انسداد دہشت گردی کے لیے ہوں گے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
گھروں کی تلاشی
نئے قوانین کے تحت متعلقہ حکام انسداد دہشت گردی کی خاطر کسی بھی مشتبہ شخص کے گھر کی تلاشی لینے کے مجاز ہوں گے۔ عام ہنگامی صورتحال کے دوران پولیس کو ایسے چھاپوں کی خاطر عدالت سے اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Edme
اہم مقامات پر مشتبہ افراد کی تلاشی
اس نئے قانون کے تحت سکیورٹی فورسزکو اجازت ہوگی کہ وہ ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کے دس کلو میٹر کے رداس میں موجود لوگوں سے شناختی دستاویزات طلب کر سکیں۔ اس اقدام کا مقصد سرحد پار جرائم کی شرح کو کم کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lecocq
عبادت گاہوں کی بندش
اس قانون کے تحت ریاست کو اجازت ہو گی کہ وہ کسی بھی ایسی عبادت گاہ کو بند کر دے، جہاں انتہا پسندانہ نظریات یا پروپیگنڈا کو فروغ دیا جا رہا ہو۔ ان عبادت گاہوں میں نفرت انگیزی اور امتیازی سلوک کی ترویج کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔ ساتھ ہی تشدد پھیلانے کی کوشش اور دہشت گردی کی معاونت کے شبے میں عبادت گاہوں کو بند بھی کیا جا سکے گا۔
تصویر: picture-alliance/Godong/Robert Harding
ایونٹس کے دوران سخت سکیورٹی
اس نئے قانون کے تحت سکیورٹی فورسز کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ ایسے مقامات کے گرد و نواح میں واقع عمارات کی چیکنگ کی خاطر وہاں چھاپے مار سکیں اور مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کر سکیں، جہاں نزدیک ہی کوئی عوامی ایونٹ منعقد کرایا جا رہا ہو گا۔ اس کا مقصد زیادہ رش والے مقامات پر ممکنہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی روک تھام کو ممکن بنانا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Samson
5 تصاویر1 | 5
ملزم کی اس کی بیوی سے چیٹ
فرانسیسی تفتیش کاروں کے مطابق اس حملے کے ملزم کا نام میکائل ہارپوں تھا، جو پیرس کے پولیس ہیڈ کوارٹرز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک ماہر کے طور پر خدمات انجام دیتا تھا۔ تفتیشی ماہرین اب تک یہ پتہ بھی چلا چکے ہیں کہ ہارپوں انتہا پسند سلفی مسلمانوں کے ساتھ رابطوں میں تھا اور ان کے لیے ہمدردی محسوس کرتا تھا۔
اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ 2015ء میں جب جریدے 'شارلی ایبدو‘ کے دفاتر پر شدت پسند مسلمانوں نے خونریز حملے کیے تھے، تو میکائل ہارپوں نے 12 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے ان حملوں کا دفاع کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر اس کے بہت سے ساتھی کارکن حیران رہ گئے تھے لیکن اس واقعے کی متعلقہ پولیس افسران نے اعلیٰ پولیس اہلکاروں کو کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔
مزید یہ کہ تین اکتوبر کے حملے سے قبل ہارپوں کی اس کی 33 سالہ بیوی کے ساتھ موبائل فون پر جو چیٹ ہوئی تھی، اس میں ان دونوں کے مابین 33 پیغامات کا تبادلہ ہوا تھا۔ پھر ہارپوں نے یکدم یہ چیٹ ختم کر دی تھی اور اس نے اپنے بیوی کو جو آخری پیغام بھیجا تھا، اس میں اس نے صرف دو لفظ کھے تھے، ''اللہ اکبر۔‘‘
م م / ع ا (ڈی پی اے)
یورپ میں دہشت گردانہ حملوں کا تسلسل
گزشتہ برسوں کے دوران مختلف یورپی شہروں کو دہشت گردانہ واقعات کا سامنا رہا ہے۔ تقریباً تمام ہی واقعات میں مسلم انتہا پسند ہی ملوث پائے گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/D. Ramos
اگست سن 2017،بارسلونا
ہسپانوی شہر بارسلونا کے علاقےلاس رامباس میں کیے گئے حملے میں کم از کم تیرہ ہلاک ہوئے ہیں۔ اس واقعے میں دہشت گرد نے اپنی وین کو پیدل چلنے والوں پر چڑھا دیا تھا۔
تصویر: Imago/E-Press Photo.com
مارچ اور جون سن 2017، لندن
برطانیہ کے دارالحکومت میں دو جون کو تین افراد نے ایک کار لندن پل پر پیدل چلنے والوں پر چڑھا دی بعد میں کار چلانے والوں نے چاقو سے حملے بھی کیے۔ لندن پولیس نے تین حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے سے قبل ایسے ہی ایک حملے میں چار افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ جون ہی میں ایک مسجد پر کیے گئے حملے میں ایک شخص کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Akmen
مئی سن 2017، مانچسٹر
برطانوی شہر مانچسٹر میں امریکی گلوکارہ آریانے گرانڈے کے کنسرٹ کے دوران کیے گئے خود کش بمبار کے حملے میں کم از کم 22 انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل تھے۔ ایک سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/R. Boyce
اپریل سن 2017، اسٹاک ہولم
سویڈن کے دارالحکومت ایک ٹرک پیدل چلنے والوں پر چڑھانے کے واقعے میں پانچ افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس حملے میں ملوث ہونے کے شبے میں ایک 39 برس کے ازبک باشندے کو حراست میں لیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ringstrom
فروری، مارچ، اپریل سن 2017، پیرس
رواں برس کے ان مہینوں میں فرانسیسی دارالحکومت میں مختلف دہشت گردانہ حملوں کی کوشش کی گئی۔ کوئی بہت بڑا جانی نقصان نہیں ہوا سوائے ایک واقعے میں ایک پولیس افسر مارا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Paris
دسمبر سن 2016، برلن
جرمنی کے دارالحکومت برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ پر کیے گئے حملے میں ایک درجن افراد موت کا نوالہ بن گئے تھے۔ حملہ آور تیونس کا باشندہ تھا اور اُس کو اطالوی شہر میلان کے نواح میں پولیس مقابلے میں مار دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/S. Loos
جولائی سن 2016، نیس
فرانس کے ساحلی شہر نیس میں پیدل چلنے والوں کے پرہجوم راستے پر ایک دہشت گرد نے ٹرک کو چڑھا دیا۔ اس ہولناک حملے میں 86 افراد مارے گئے تھے۔ اسلامک اسٹیٹ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تصویر: Reuters/E. Gaillard
مارچ سن 2016، برسلز
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز کے میٹرو ریلوے اسٹیشن پر کیے گئے خودکش حملوں میں کم از کم 32 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
جنوری سن 2016، استنبول
ترکی کے تاریخی شہر استنبول کے نائٹ کلب پر کیے گئے حملے میں 35 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ ان ہلاک شدگان میں بارہ جرمن شہری تھے۔ حملہ آور کا تعلق اسلامک اسٹیٹ سے بتایا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/Depo Photos
نومبر سن 2015، پیرس
پیرس میں کیے منظم دہشت گردانہ حملوں میں 130 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔ ان حملوں کے دوران ایک میوزک کنسرٹ اور مختلف ریسٹورانٹوں پر حملے کیے گئے تھے۔ حملہ آور جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے حامی تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Guay
فروری سن 2015، کوپن ہیگن
ڈنمارک کے دارالحکومت میں واقع ایک کیفے پر ایک نوجوان کی فائرنگ سے ایک شخص کی موت واقع ہوئی تھی۔ اسی حملہ آور نے بعد میں ایک یہودی عبادت گاہ کے محافظ کو بھی ہلاک کیا تھا۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
جنوری سن 2015، پیرس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ایک میگزین کے دفتر اور یہودیوں کی اشیائے ضرورت کی مارکیٹ پر کیے گئے حملوں میں 17 افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Feferberg
مئی سن 2014، برسلز
فرانس سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان حملہ آور نے بیلجیم کے یہودی میوزیم پر فائرنگ کر کے چار افراد کو موت کی گھاٹ اتار دیا۔ حملہ آور ایک خود ساختہ جہادی تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images/G. Gobet
جولائی سن 2005، لندن
چار برطانوی مسلمانوں نے لندن میں زیر زمین چلنے والے ٹرام کو مختلف مقامات پر نشانہ بنایا۔ ان بم حملوں میں 56 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: dpa
مارچ سن 2004، میڈرڈ
منظم بم حملوں سے ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ کے ریلوے اسٹیشن پر 191 انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ ان بموں کے پھٹنے سے پندرہ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔