پیرس کا مشہور زمانہ آئفل ٹاور عملے کی ہڑتال کے باعث بند
27 دسمبر 2023
دنیا کے انتہائی پرکشش اور مشہور ترین سیاحتی مقامات میں شمار ہونے والا فرانسیسی دارالحکومت پیرس کا آئفل ٹاور آج بدھ ستائیس دسمبر کے روز عملے کی ہڑتال کے باعث بند کر دیا گیا۔ یہ بات اس ٹاور کے انتظامی ادارے نے بتائی۔
اشتہار
آئفل ٹاور کی آپریٹر کمپنی ایس ای ٹی ای (SETE) کے مطابق اس مشہور عالم تعمیراتی ڈھانچے کے کارکنوں نے آج بدھ کے روز ہڑتال اس ٹاور کو ڈیزائن کرنے والے انجینیئر گستاو آئفل کی سو ویں برسی کے موقع پر کی۔
اس ٹاور کی تعمیر کا کام گستاو آئفل ہی کی نگرانی میں مکمل کیا گیا تھا۔ گستاو آئفل کا انتقال 91 برس کی عمر میں 27 دسمبر 1923ء کے روز ہوا تھا۔
کارکنوں کی ٹریڈ یونین کا موقف
آئفل ٹاور کی انتظامی کمپنی کے ملازمین کے طور پر مختلف پیشہ وارانہ خدمات انجام دینے والے کارکنوں کی انتہائی بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی ٹریڈ یونین سی جی ٹی (CGT) کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ کارکنوں نے اس ہڑتال کا فیصلہ اس موجودہ رویے اور طرز عمل کے خلاف احتجاج کے طور پر کیا، جو ٹاور کی آپریٹر کمپنی نے اپنا رکھا ہے۔
ٹریڈ یونین کے بیان میں مزید کہا گیا، ''ہمارا احتجاج اس موجودہ طریقہ کار کے خلاف ہے، جس کے ذریعے اس ٹاور کو آپریٹ کیا جا رہا ہے۔‘‘
ساتھ ہی اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ایس ای ٹی ای اپنے طرز عمل کی وجہ سے ''تباہی کی طرف‘‘ جا رہی ہے۔
آپریٹر کمپنی کی طرف سے سیاحوں سے معذرت
آئفل ٹاور کے انتظامی ادارے نے پیرس کے اس مشہور ترین سیاحتی مقام کے آج بند رہنے پر ان ہزار ہا سیاحوں اور مہمانوں سے معذرت کی ہے، جو آج اس ٹاور کی سیر نہ کر سکے۔ جن شائقین نے اس ٹاور کی سیر کے لیے پہلے سے الیکٹرانک ٹکٹیں خرید رکھی تھیں، انہیں اپنی ای میلز چیک کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ یا تو کسی اور دن آئفل ٹاور کی سیر کر سکتے ہیں یا اپنی ادا کردہ رقم واپس طلب کر سکتے ہیں۔
آئفل ٹاور کو دیکھنے ہر سال فرانس اور دنیا بھر سے لاکھوں افراد پیرس جاتے ہیں۔ ان مہمانوں کی سالانہ تعداد تقریباﹰ سات ملین بنتی ہے اور ان میں سے تین چوتھائی غیر ملکی ہوتے ہیں۔
ماضی میں دنیا کا بلند ترین تعمیراتی ڈھانچہ
پیرس کا آئفل ٹاور اس کے ڈیزائنر اور تعمیر کنندہ انجینئر گستاو آئفل کی سربراہی میں 18.038 دھاتی ٹکڑوں سے 1887 سے لے کر 1889 تک صرف دو سال، دو ماہ اور پانچ دن کے ریکارڈ وقت میں تعمیر کیا گیا تھا۔
یہ ٹاور پیرس میں منعقد ہونے والی عالمی نمائش ایکسپو کے لیے تیار کیا گیا تھا اور پروگرام کے مطابق ایکسپو کے بعد اسے منہدم کر دیا جانا تھا لیکن عملاﹰ ایسا کیا نہیں گیا تھا۔
آئفل ٹاور 300 میٹر سے زیادہ بلند ہے اور اپنی تعمیر کے وقت یہ دنیا بھر میں انسانوں کا تعمیر کردہ بلند ترین تعمیراتی ڈھانچہ تھا۔ اس ٹاور کی تعمیر کے بعد آئفل ٹاور کو یہ اعزاز چار عشروں تک حاصل رہا کہ وہ دنیا کا بلند ترین تعمیراتی ڈھانچہ تھا۔
م م / ش ر (اے ایف پی، ڈی پی اے)
آئفل ٹاور کو سالگرہ مبارک
فرانسیسی دارالحکومت میں ایک سو تیس سال قبل آئفل ٹاور کا افتتاح ہوا تھا۔ آج یہ پیرس کی ایک شناخت بن چکا ہے۔ جب اس کی تعمیر شروع ہوئی تھی تو اس کے خلاف شدید احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: FRANCK FIFE/AFP/Getty Images
ایک مقناطیس
ہر سال اس فن تعمیر کو دیکھنے کے لیے سات ملین سیاح آتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں سب سے زیادہ سیاح اسی شاہکار کو دیکھنے آتے ہیں۔
تصویر: FRANCK FIFE/AFP/Getty Images
غیر معمولی
آئفل ٹاور کی بلندی تین سو میٹر سے زائد ہے۔ اپنے افتتاح کے وقت یہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت تھی۔ اسے 1889ء کے عالمی میلے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ منصوبے کے مطابق اسے بیس سال بعد منہدم کر دیا جانا تھا۔ تاہم عسکری مواصلاتی آلات اور موسمیاتی آلات کی تنصیب کی وجہ سے یہ منہدم کیے جانے سے بچ گیا۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/K. F. Schöfmann
جرات و حوصلہ
آئفل ٹاور انجینیئر الیگزانڈر گستاف کا شاہکار ہے۔ اس پر 7.8 ملین فرانک کی لاگت آئی تھی اور زیادہ تر اخراجات گستاف نے ہی برداشت کیے تھے۔ تاہم افتتاح کے بعد پہلے ہی برس کے دوران بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد سے ہونے والی آمدنی کی وجہ سے گستاف اپنے اخراجات پورے کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
معمہ
آئفل ٹاور کی تیاری میں اٹھارہ ہزار آہنی ٹکڑے اور پچیس لاکھ میخیں یا کیلیں استعمال ہوئی ہیں اور اس کا وزن دس ہزار ٹن سے زائد ہے۔ ہر سات سال میں اسے نیا رنگ کیا جاتا ہے اور اس کام پر تقریباً ڈیڑھ سال لگتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/chromorange/H. Czizek
تعمیر
آئیفل ٹاور کو مکمل ہونے میں دو سال اور دو مہینے کا عرصہ لگا تھا۔ پیرس میں فن کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے اس آہنی مینار پر تنقید کی تھی۔ اکتیس مارچ 1889ء کو اس کے افتتاح کے موقع پر تمام تر احتجاج ختم ہو چکے تھے۔
تصویر: Getty/The Paper Time Machine
قومی شناخت
ہر شام آئفل ٹاور پر بیس ہزار برقی قمقمے روشن ہوتے ہیں۔ خصوصی مواقعوں پر تو اس مینار کو مختلف انداز میں روشن کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر چودہ جولائی کو منائے جانے والے قومی دن، فرانسیسیوں کے من پسند گلوکار جونی ایلیدے کی یوم وفات اور 2016ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد یہاں علامتی طور پر چراغاں کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Godong/P. Lissac
آئفل ٹاور سر کرنا
یہ تصویر فرانسیسی ماؤنٹین بائکر ہوگ ریشرڈ کی ہے۔ ان کے علاوہ کوہ پیماؤں، کراس موٹر سائیکلسٹ اور بنجی جمپ کرنے والوں نے بھی اپنے چیلنجز پورا کرنے اور نئے ریکارڈ بنانے کے لیے آئفل ٹاور کا انتخاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/Meyer
آسمان اور زمین کے درمیان
آئفل ٹاور کی چھت پر پہنچنے والے سیاح پیرس میں نہیں بلکہ اس شہر کے اوپر ہوتے ہیں۔ یہ منظر دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح آئفل ٹاور کی تقریباً سترہ سو سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ٹاور میں پانچ مختلف لفٹس بھی نصب ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Schmidt
آئفل ٹاور کی جاذبیت
آئفل ٹاور سے غروب آفتاب کا منظر انتہائی متاثر کن ہوتا ہے۔ اس منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے سیاحوں کی بڑی تعداد اس ٹاور کی چھت پر سورج کے غروب ہونے کا انتظار کرتی ہے۔ آئفل ٹاور کے بغیر پیرس ناقابل تصور۔۔