1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس کمیون کا المیہ

11 اگست 2021

غلاموں، کسانوں، مزدوروں اور ہنر مندوں نے اپنے جوش اور جذبے کی بنیاد پر منظم اور تربیت یافتہ فوجوں سے بھی جنگیں لڑیں اور اپنے انقلابی جذبے کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا عمل بھی جاری رکھا۔ ڈاکٹر مبارک علی کا بلاگ

ڈاکٹر مبارک علیتصویر: privat

ابتدا ہی سے انسان کی یہ خواہش رہی ہے کہ اسے عزت و وقار کا درجہ دیا جائے اور سوسائٹی میں رائج اونچ نیچ کا فرق ختم کر دیا جائے۔ محروم طبقوں نے برابری اور مساوات کے حق کے حصول کے لیے ناکامیوں کے باوجود مسلسل جدوجہد کی ہے۔

پیرس میں عوامی بغاوت کی ابتدا سن 1789 میں ہوئی اور پھر اس انقلابی جذبے نے قدامت پسندانہ اقدامات کو دوبارہ سے فرانس میں ابھرنے نہیں دیا۔ پھر 1830ء کا جولائی انقلاب آیا اور اس کے بعد  1848ء میں پیرس ایک بار پھر انقلاب کی لپیٹ میں آ گیا۔

اس انقلاب کے نتیجے میں جو انتخابات ہوئے اس میں نپولین بونا پاٹ کے بھتیجے لوئی نیپولین کو صدر منتخب کر لیا گیا۔ لیکن اس نے 1851ء میں فوج کی مدد سے حکومت پر قبضہ کرکے اپنے شہنشاہ ہونے کا اعلان کر دیا اور  نیپولین بونا پاٹ کے وارث  ہونے کا دعویٰ کرکے اپنے جائز ہونے کا اعلان کیا۔

لوئی نے ہی نیپولین کے تابوت کو  پیرس  لا کر سینٹ الینا (St.Helina) میں دفن کرایا اور مقبرہ بھی تعمیر کرایا۔

لوئی نیپولین نے اپنی بادشاہت کے عہد  میں پیرس شہر کی تعمیر نو کروائی۔ یہ اس بات کی کوشش تھی کہ پیرس کے نچلے طبقے کے لوگوں کو شہر کے مرکز سے نکال کر مضافات میں آباد کیا جائے تاکہ وہ نہ کوئی مظاہرہ کر سکیں اور نہ شہر کے امن میں خلل ڈال سکیں۔

لیکن پیرس شہر کی آبادی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں سے کاریگر اور ہنرمند روزگار کی تلاش میں پیرس کا رخ کر رہے تھے۔ عام لوگوں کی آبادیاں گنجان ہو گئی تھیں۔ بیروزگاری بڑھ رہی تھی، شہر امیر اور غریب کے درمیان تقسیم ہو گیا تھا۔

یہ وہ حالات تھے کہ جب 1870ء میں جرمنی نے فرانس پر حملہ کر دیا اور SEDAN کی جنگ میں فرانس کو شکست ہوئی۔ لوئی نیپولین کو قید کر لیا گیا اور فرانس کو ذلت آمیز شرائط پر صلح کرنا پڑی۔ اس کے بعد فرانس میں نئی حکومت قائم ہوئی جو پیرس چھوڑ کر  ورسائی منتقل  کر دی گئی۔ پیرس شہر اب دو طرف سے محصور ہو گیا تھا۔ ایک طرف جرمن فوج تھی اور دوسری طرف فرانسیسی۔

ان حالات میں جب پیرس کا محاصرہ کر لیا گیا تھا، تب وہاں کے انقلابیوں نے نیشنل گارڈز کی مدد سے اپنی حکومت قائم کی جو پیرس کمیون کہلائی۔ کمیون نے اپنے قیام کے فوراً بعد شہر میں امن و امان قائم کیا۔ شہر کے دفاع کے لیے فوجی تیاریاں شروع کیں اور شہر کی حکومت کے لیے عوامی سلامتی کے لیے ایک کمیٹی  قائم کی ۔

اسی دوران اصلاحات کا اعلان کیا گیا اور  اس مقصد کے لیے پیرس کی پہلی ورکنگ کلاس انتظامیہ نے ان اصلاحات کے ذریعے  ریاست اور چرچ کو علیحدہ علیحدہ کر دیا۔کئی چرچوں کو مسمار بھی کیا گیا اور راہبوں کو قید کرکے ان کے مذہبی فرائض ادا کرنے پر پابندی لگا دی۔ پیرس کے بشپ کو پہلے قید میں لیا گیا اور بعد ازاں انہیں قتل کر دیا۔

مذہبی تہواروں کی جگہ غیر مذہبی تہوار منانے کی ابتدا ہوئی۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ فوج اور نوکر شاہی کے تمام عہدیداروں کا انتخاب شہر کے عوام کریں گے۔ نوجوانوں کو نیشنل گارڈز میں شامل کیا گیا اور ان کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔

اسکول کھولے گئے، جن میں  بچیوں کو بھی تعلیم کا پورا پورا حق دیا گیا۔ آرٹ کی تعلیم کے لیے بھی ادارے قائم قائم کیے گئے اور اہم لوگوں کے لیے ثقافتی سرگرمیاں شروع کی گئیں۔ موسیقی اور ڈرامے کے لیے تھیٹرز سجے اور  تمام لوگ جن کو پیرس کے مرکز سے نکالا گیا تھا، وہ دوبارہ سے واپس آ گئے اور شہر انقلابیوں کے ہاتھوں عوامی ہو گیا۔

مشہور  مصور گستاف کوربے نے پیرس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ 'کیا خوبصورت شہر ہے کیونکہ اب یہاں پولیس ہے نہ فوج‘ کمیون نے فرانس کے ترنگے جھنڈے کی جگہ سرخ رنگ کا پرچم منتخب کیا جو اس کے انقلابی ہونے کی علامت تھا۔

معروف سوشلسٹ اور انقلابی  لوئی آگوسٹ بلانکی کے الفاظ میں پرولتاریوں کی آمریت تھی۔ کمیون نے سزائے موت کا خاتمہ کیا اور یہاں تک کے  عوامی مقامات پر جانوروں کو ذبح پر پابندی لگا دی۔

اس دوران پیرس کمیون کو چار مہینے محاصرے کی حالت میں رہنا پڑا۔ جرمن فوج نے شہر پر قبضہ تو نہیں کیا مگر اس کا محاصرہ کرکے کھانے پینے کی اشیاء بند کر دیں، جس کی وجہ سے شہر کے لوگ سخت مشکلات میں گھرے رہے۔

غذائی اشیاء کی قلت ہوئی تو  امراء  نے مہنگے داموں کھانے کی اشیاء خرید کر اپنا گزارا تو کر لیا، مگر دوسرے عام لوگ فاقوں کا شکار ہو گئے۔ نیشنل گارڈز نے ورسائی پر حملہ کرکے فوج کو شکست دینے کی کوشش کی، جو ناکام ہوئی لیکن ستمبر 1871ء میں پیرس کمیون اور فوج کے درمیان ایک سخت معرکہ ہوا۔

پیرس کمیون کے انقلابیوں نے 900 کے قریب رکاوٹیں کھڑی کرکے اپنے دفاع کا انتظام کیا۔ دفاع کرنے والوں میں مردوں کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ عورتوں نے اس لڑائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن فوج کے مقابلے میں کمیون کے انقلابی اس لیے ناکام ہوئے کیونکہ فوج نے توپوں کے ذریعے گولہ باری کرکے ان رکاوٹوں کو دور کیا۔ لیکن پھر یہ جنگ ہر محلے اور گلی میں ہوئی۔ اس میں 20 سے 25 انقلابی مارے گئے۔ ہزاروں لوگ قید ہوئے جن پر مارشل لاء کے تحت مقدمے چلائے گئے اور جلد ہی ان کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، جو زندہ بچ گئے انہیں فرانسیسی کالونیوں میں جلاوطن کر دیا۔ فوج نے لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کرکے شہر کو دوبارہ سے ایسا بنا دیا جیسا کہ یہاں کوئی قتل و غارت یا جنگ و جدل کبھی ہوئی ہی نہیں۔

اگرچہ پیرس کمیون ناکام ہو گئی مگر تاریخ میں اس کی یادیں ابھی تک موجود ہیں۔ کارل مارکس نے اپنی کتاب Civil war in France میں پیرس کمیون کے انقلابیوں کی تعریف کرتے ہوئے ان کی بہادری اور جرأت کو خراج عقیدت پیش کیا، لیکن ساتھ ہی انہوں نے ان کا تنقیدی جائزہ بھی لیا۔

مارکس کے مطابق انقلابیوں کی لیڈر شپ میں اتحادیوں کی کمی تھی۔ باہمی رابطوں کا فقدان تھا۔ وقت پر انہوں نے ورسائی کی فوج کی خلاف اقدامات بھی نہیں کیے اور اپنے مخالفوں کے ساتھ نرم رویہ برتا، جس کی وجہ سے ان کے درمیان مخبر اور جاسوس آگئے، جنہوں نے دشمنوں کو ان کی کمزوریوں کے متعلق بہم اطلاعات پہنچائیں۔

ولادیمیر لینن نے اس انقلاب سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی دلیل تھی کہ انقلاب کے بعد مخالفین کا مکمل خاتمہ کر دینا چاہیے تھا، جیسا کہ 1917ء کے روسی انقلاب کے بعد ہوا۔ خونریزی انقلاب کا ایک حصہ ہوتیہ ہے، لینن نے یہ سبق بھی حاصل کیا کہ انقلاب لانے کے لیے کسی ہجوم کی ضرورت نہیں بلکہ انقلابی جذبے سے معمور ایک پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے، جو انقلاب لانے میں مدد کرتی ہے۔

اسی سبق کو ہم چین کے انقلاب میں بھی دیکھتے ہیں۔ تاریخ میں ہم پیرس کمیون کے بارے میں دو نکتہ ہائے نظر دیکھتے ہیں۔ ایک قدامت اور روایت پرست ہے، جس میں کمیون اور اس کے انقلابیوں کو عادی مجرم اور فسادی قرار دیا جاتا ہے، جنہوں نے قدیم روایات کو توڑ کر انتشار پیدا کیا۔ لیکن کمیون کے حامیوں نے جو تاریخ لکھی ہے، اس میں انقلابیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے انقلاب  اور عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کی خاطر نہ صرف اپنے خاندان  چھوڑ دیے بلکہ لڑتے ہوئے جانیں بھی دیں۔

کمیون کی تاریخ پر جہاں مورخین نے لکھا  ہے، وہیں کمیون کے ان افراد کی یادداشتیں بھی شائع ہوئی ہیں، جو اس خانہ جنگی میں زندہ بچ گئے تھے۔ اب ایک وقت گزرنے کے بعد پیرس کمیون کے بارے میں اور نئی معلومات کا انکشاف ہو رہا ہے اور نئی دستاویزات  بھی سامنے آرہی ہیں۔ لہٰذا ان کی روشنی میں پیرس کمیون کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھا جا رہا ہے۔

آج بھی دنیا بھر کے انقلابیوں کے لیے پیرس کمیون ایک اہم سبق دیتی ہے کہ ناکامی کے باوجود انقلابی تحریکیں اپنا ورثہ چھوڑ جاتی ہیں اور آنے والی نسلوں کو اپنا مستقبل بنانے کے لیے تازہ جذبہ اورشعور تو دیتی ہی ہیں لیکن ساتھ میں تاریخی حوالہ جات کے ذریعے معاشرتی رویوں کا تجزیہ بھی کرتی ہیں۔ 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں